انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ جاوید، فیضان عبد الرزاق حیدر
آباد
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اقوام کی فلاح، بہبود و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل
علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اپنی اپنی امتوں و اقوام کو صراطِ مستقیم و
دین و شریعت کی صحیح تعلیم دے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کروا سکیں۔ اس کا
ذکر اللہ پاک نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 165 میں ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: بشارت
دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ رسول کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ
کے خلاف عذر کی گنجائش نہ رہے۔
نبی
کی تعریف:
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کی
ہوئی وحی کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہو۔ ( مسامرہ، ص 270)
انبیاء کرام کی کل تعداد: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ ﷺ تک بےشمار انبیاء کرام علیہم السلام
تشریف لائے اور ان کی کل تعداد بعض علماء کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جن میں
سے 313 رسول ہیں۔
پانچ
انبیاء کرام کے اذکار: 5 انبیاء کرام کا ذکر قرآن مجید کی روشنی میں درج
ذیل ہیں؛
1۔
حضرت آدم:
حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آنے والے سب سے پہلے بشر و پیغمبر ہیں۔ چنانچہ اللہ
تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرمایا۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ
جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں
کوکہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان
تھے جو بِن ماں باپ کے تخلیق کیے گئے تھے اس لیے آپ کو ابوالبشر یعنی تمام آنے والے
انسانوں کا والد بنایا گیا اور اب قیامت تک جو بھی انسان اس دنیا میں آئیں گے وہ
سب آپ علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
شیطان
منکر ہوگیا:
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا تو فرشتوں کو حکم دیا
کہ وہ آپ کو سجدۂ تعظیمی کریں۔ چنانچہ ارشاد ہوا: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ
الْكٰفِرِیْنَ(۷۴) (صٓ: 70) ترجمہ: بس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے
ابلیس کے، اس نے گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
2۔ حضرت موسیٰ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ کوہِ طور پر اللہ
تعالیٰ سے آپ براہِ راست کلام فرمایا کرتے تھے اور اس کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن
مجید میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام
کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کی قوم کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتاب توریت نازل
فرمائی اور آپ کو لاٹھی جیسے معجزات سے بھی نوازا تھا۔
فرعون
کا خاتمہ: فرعون ملک مصر کا بادشاہ تھا جو بنی اسرائیل پر بے تحاشا ظلم و
ستم کرتا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اس کو
ہدایت، نشانیاں و معجزات دکھائے پر وہ سرکش و ملعون ایمان نہ لایا اور دریائے نیل
میں غرق ہوگیا اور اس ملعون سے عبرت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا
میں رکھا۔
بنی اسرائیل: حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی قوم بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولادوں میں سے ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے ان کو تمام عالم میں فضیلت دی تھی۔چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 122میں
ارشاد ہوا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ
الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى
الْعٰلَمِیْنَ(۱۲۲) ترجمہ کنز
الایمان: اے اولادِ یعقوب یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا او ر وہ جو میں
نے اس زمانہ کے سب لوگوں پر تمہیں بڑائی دی۔
ایک واقعہ کے
مطابق بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پوجا کی
اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بت پرستی کے باعث دنیا و آخرت میں انہیں ذلیل ورسوا
کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا، ترجمہ کنزالایمان: جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ان
پر بہت جلد ان کے رب کا غضب نازل ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت نصیب ہوگی۔
3۔ حضرت ادریس:
آپ علیہ السلام کا اصل نام اخنوع تھا، لیکن درس وتدریس کی کثرت کرنے سے آپ کو
ادریس کے لقب سے جانا جانے لگا۔ آپ ہر وقت ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور اس کتاب
میں ادریس کا بھی ذکر کر وہ بھی نیک کردار کے نبی تھے۔
دینِ حق کے لیے
جہاد: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے پیدا
فرمایا تھا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے ہی پہلے درس و تدریس سے دین اسلام کی تبلیغ
شروع کی تھی اور قابیل کی قوم کو دین و شریعت کی راہ دکھائی، لیکن جب انہوں نے
نافرمانی کی اور ایک اللہ پر ایمان نہیں لائے تو آپ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ بت
پرستوں کے خلاف جہاد کیا۔
آپ
علیہ السلام کی وفات مبارک: روایتوں کے مطابق اللہ پاک نے آپ کی
روح چوتھے آسمان مبارک میں قبض کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کا ذکر قرآن مجید میں
موجود ہے، ترجمہ: ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھایا۔ اور آپ کی روح کو چوتھے آسمان
مبارک سے اٹھایا گیا۔
4۔حضرت نوح: حضرت نوح علیہ
السلام کا نام گرامی شکر تھا،لیکن آپ علیہ السلام اپنی قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے
لیے بہت نوحہ کرتے تھے۔ قرآن مجید میں آپ کو نوح کے نام سے پکارا گیا ہے۔ چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور بھیجا ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس پھر رہا ان
میں ہزار برس۔( قصص الانبیاء، ص44)
نوح علیہ
السلام کی قوم بہت سرکش و نافرمان تھی آپ ان کے یہاں ساڑھے نو سو برس تک اللہ کا
پیغام پہنچاتے رہے، لیکن وہ ایمان نہیں لائی اور آپ کو نعوذ باللہ دیوانہ کہتے اور
آپ پر پتھروں وغیرہ سے ظلم و ستم کیا کرتے۔
نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب: حضرتِ نوح نے جب
یہ سب دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا فرمائی اور عرض کیا:اور کہا نوح
نے اے رب نہ چھوڑ زمین پر منکروں کا ایک گھر بھی بسنے والا کہ نسل کافروں کی باقی
نہ رہے۔ ( قصص الانبیاء، ص 45)
آسمان سے اللہ
کی فریاد آئی:بنا کشتی روبرو ہمارے حکم سے اور نہ بول مجھ سے ظالموں کے واسطے یہ
البتہ غرق ہوں گے تو ان تختوں سے کشتی بنا۔ (قصص الانبیاء، ص 46)
البتہ نوح
علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کشتی تعمیر کی اور قوم پر سیلاب کا
عذاب آتے ہی وہاں سے روانہ ہوگئے۔
5۔حضرت شیث:
حضرت شیث علیہ السلام حضرت آدم کے تیسرے بیٹے اور بعد آنے والے دوسرے نبی تھے۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ پر 50 آسمانی صحیفے نازل فرمائے۔
حضرت شیث کی قوم:
حضرت شیث کی قوم اولادِ قابیل میں سے تھی جو بہت فساد، فتنہ، بدکاری و شراب نوشی
کیا کرتی، حالانکہ یہ سب چیزیں حضرت شیث علیہ السلام کی شریعت میں حرام تھی، لیکن
وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہیں کرتی اور بتوں کو پوجتی اللہ تعالیٰ نے ان
پر حضرت شیث علیہ السلام کی نسب میں سے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی
ہدایت کے لئے بھیجا لیکن وہ نافرمانی و بدکاری میں لگی رہی اور تھوڑے سے لوگ ہی ایمان
لے کر آئے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفانِ نوح سے ہلاک و برباد فرمایا۔
ہم آخری امتی ہیں: امت مسلمہ
ذرا ہم غور کریں تو آپ ﷺ کے آنے سے قبل بہت سی اقوام آئیں اور اپنی سرکشی و
نافرمانی کی وجہ سے ہلاک و تباہ ہوئی۔ ویسا ہی ہمارا بھی کچھ حال ہے کہ ہم بھی
اپنی زندگی نافرمانیوں و گناہوں میں بسر کرتےہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل
وکرم ہے کہ وہ ہمارے دن بھر کے گناہوں کی فورا سزا نہیں دیتا اور نہ حساب کرتا۔
ہمیں چاہیے کہ جب تک ہماری سانسیں بحال ہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری و پیارے
نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرکے گزاریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طریقہ سے
دین اسلام و شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین