1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ:بے شک قومِ سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی۔دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کر و پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب۔

تفسیر:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر ایک قبیلہ سبا واقع تھا۔ اللہ پاک نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔یہ قوم خوشحال اور پر سکون زندگی بسر کر رہی تھیں۔ان کے شہر کے دونوں طرف کثیر باغات تھے۔ اس قوم کے سردار کا لقب حمار تھا وہ اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کردیا۔ یہ سردار لوگوں کو اعلانیہ کفر کی دعوت دینے لگا، جو کفر کا انکار کرتا اسے قتل کر دیتا تھا۔

جب حمار اور اس کی قوم کی سرکشی بہت زیادہ بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔قوم سبا کی بستی کے کنارے ملکہ بلقیس نے ایک ڈیم بنایا تھا جس کے اوپر نیچے تین دروازے تھے۔ ایک چوہے نے اللہ کے حکم سے اس بند میں سوراخ کر دیا جو شگاف بن گیا یہاں تک کہ دیوار ٹوٹ گئی اور اچانک سیلاب آگیا۔ (تعلیمات قرآن،ص169،حصہ:3)

2- وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) اور قوم عاد کی طرف اُن کے ہم قوم کو بھیجا (ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟

حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد سے تھا۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا قد طویل،چہرہ حسین و جمیل اور داڑھی لمبی تھی۔آپ کی عمر 472 سال ہوئی۔الله پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔قوم عاد کئی برائیوں میں مبتلا تھی۔انہوں نے مختلف ناموں کے بت بنائے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ پہاڑوں میں مضبوط گھر بنا کر سمجھتے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔لوگوں پر ظلم کرتے تھے۔اپنی طاقت و قوت پر غرور و تکبر کرتے تھے وغیرہ۔

حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اللہ پاک پر ایمان لاؤ، اس کے رسول کی تصدیق کرو اور اس کے حضور تو بہ استغفا رکرو تو اللہ پاک بارش بھیجے گا، ان کی زمینوں کو سر سبز و شاداب کر کے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوت و اولاد دے گا مگر قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی بات نہ مانی تو اللہ پاک نے ان پر آندھی کا عذاب بھیجا جو مسلسل سات راتیں آٹھ دن جاری رہی اور قوم عادکے کفار کا نام و نشان مٹ گیا۔

3-بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام: وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷) ( 1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہو گئے۔کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کلامِ الٰہی سنایا کہ ملک شام کی طرف ہجرت کرو کہ اسی میں بیت المقدس ہے۔اسے قوم عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔مصر چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ایک میدان میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے انہیں من و سلویٰ ملنا شروع ہو گیا جو ہفتہ کو نہ آتا تھا۔ انہیں حکم تھا کہ جمعہ کو ہفتہ کے لئے بھی جمع کرلینا لیکن زیادہ جمع نہ کریں۔ بنی اسرائیل نے حکم الٰہی کی نا فرمانی کی اور ایک دن سے زیادہ کے لئے جمع کیا تو وہ جمع کیا ہوا کھانا سڑ گیا اور اللہ پاک کی طرف سے نعمت آنا بند ہو گئی۔

4 –حضرت یونس اور ان کی قوم:ترجمہ:توکیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تا کہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھا نے دیا۔

حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔ آپ کو موصل کے شہر نینوی کی طرف رسول بنا کے بھیجاگیا۔نینوی شہر کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔اللہ پاک کے ایک ہونے کا انکار کرنے کے شرک میں متلاتھے۔ یونس علیہ السلام ان کے پاس آئے،انہیں بت پرستی سے منع کیا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ ان لوگوں نےآپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آپ پر پتھراؤ کیا۔ آپ نے ان کو الله پاک کےحکم سے عذاب آنے کی خبر دی اور خود وہاں سے چلے گئے۔ پھر ان لوگوں نے اخلاص کے ساتھ توبہ کی، ایمان لائے تو الله کو ان پر رحم آگیا اور ان کا عذاب ٹل گیا۔ (تعلیمات قرآن، حصہ:3)

نصیحت: ہمیں اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں الله پاک اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے بچنا چاہئے۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کرنی چاہیے کہ الله پاک بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے گنا ہوں پر ہمیں نادم ہوتے رہنا چاہیے۔