حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد کے قبیلے سے ہے۔آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بناکر بھیجا۔

آیتِ مبارکہ: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) ترجمہ کنز العرفان: اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ( ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں،کیا تم ڈرتے نہیں ؟

تفسیر: آیت میں ”اَخَا بھائی“ سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ”ہم قوم مراد ہے۔

نوٹ:اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے سوائی کسی کی عبادت نہ کی جائے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔تو کیا تم اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے نہیں؟ ہمیں الله پاک سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے۔(تعلیماتِ قرآن، ص170، حصہ:3)

حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔آپ کو موصل کے شہر نینویٰ کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا۔حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کے آثار ہونے کے بعد بھی عذاب ٹل گیا۔

آیت مبارکہ: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) (پ11،یونس:98) ترجمہ:تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب بنا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔

تفسیر:فرعون نے بھی آخری وقت میں تو بہ کی تھی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے بھی لیکن فرعون کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوگئی۔فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی جبکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کی نشانیاں دیکھ کر اسی وقت توبہ کرلی۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزول عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزول عذاب سے پہلے صرف علامات ِ عذاب کے ظہور کے وقت توبہ قبول ہو سکتی ہے۔

نوٹ:اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے تواس وقت اس گناہ سے معافی مانگ کر آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئے،ایسے لوگوں کو اللہ معاف فرمانے والا ہے۔(تعلیماتِ قرآن،حصہ:131، ص15)

قوم سبا:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر عرب کا ایک قبیلہ”سبا“آباد تھا۔اللہ پاک نے قومِ سبا کی ہدایت کے لیے یکے بعد دیگرے 13 انبیائے کرام بھیجے۔

آیت مبارکہ: ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْاؕ-وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ(۱۷) (پ22،السبا: 17) ترجمہ: ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی وجہ سے یہ بدلہ دیا اوراسی کو سزا دیتے ہیں جو ناشکرا ہو۔

تفسیر:سبا والوں کے حالات و انجام سے معلوم ہواکہ نعمتوں کی نا شکری ان کے زوال و مصائب اور آلام میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی ناشکری سے بچنا چاہیے اور اللہ پاک کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔(تعلیمات قرآن،ص148، حصہ:3)

حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ پاک کے پیغمبر ہیں۔آپ حضرت یوسف کے والد حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے ہیں۔آپ کا لقب اسرائیل ہے۔آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے 147 سال کی عمر میں وفات پائی۔

آیت مبارکہ: قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) (پ13، یوسف:86) ترجمہ:یعقوب نے کہا:میں تو اپنی ہر پریشانی اور غم کیفریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہے جو تم نہیں جائے۔

تفسیر:حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ غم اورپریشانیوں میں اللہ سے فریادکرنا صبر کے خلاف نہیں۔ہاں! بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنا،لوگوں سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت یوسف زندہ ہیں اور ان سے ملنے کی توقع ہے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات میں صبرسے کام لینا چا ہیے نہ کہ بے صبری کر کے اپنے ثواب کو ضائع کر دیا جائے اور اللہ پاک صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔