قرآنِ پاک میں جس طرح عقائد و اعمال،احکام،بشارتیں اور وعیدات بیان ہوئیں، اسی طرح کفار کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺکی تسلی کے لیے سا بقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے، ان واقعات میں تمام مسلمانوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہے اور ان واقعات کو بیان کر کے کفار ِ مکہ کو بتا یا گیا ہے کہ سابقہ امتیں اپنے انبیا اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد کر دی گئیں تو کفار ِمکہ کو بھی ڈرنا چاہئے کہ ان کی طرح انہیں بھی ہلاک نہ کر دیا جائے۔ ان میں سے کچھ انبیا ئے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

(1) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی جانب بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد بت پرستی کی وبا عام ہوگئی۔کفر و ضلالت میں گھرے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔( صراط الجنان، 10/362) حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے سرکشی کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو جھوٹا قرار دیا اور بت پرستی پر قائم رہی۔آپ علیہ السلام نے 950 سال تبلیغ کی لیکن صرف 80 افراد ایمان لائے۔(سیرت الانبیاء،ص184) پھر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفار کے خلاف دعاکی تو اللہ پاک نے آپ کو کشتی بنانے کا حکم دیا۔ آپ علیہ السلام نے دو سال میں کشتی تیار کی۔جب آپ علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو آسمان سے لگاتار چالیس دن تک بارش برسی اور زمین سے بھی پانی نکلنے لگا۔ جب قومِ نوح غرق ہوگئی تو زمین پانی نگل گئی۔آپ علیہ السلام کی کشتی چھ مہینے زمین پر گھومتی رہی پھر جودی پہاڑ پر ٹھہری۔

(2) حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد:قومِ عاد کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-(پ8، الاعراف:65) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔

آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پر ایمان لانے کا فرمایا اورعذابِ الٰہی سے ڈرایا۔ صراط الجنان میں ہے:حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ پاک کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔(صراط الجنان،3/352)

حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت حق سن کر قوم کے سرداروں نے کہا:تم سرا سر حماقت کا شکار لگتے ہو۔ ( سیرت الابنیا،ص209) یہ قوم بہت طاقتور تھی۔جب انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر عذاب آیا تو ہم اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں اور کہا:اگر تم سچے ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ پھر ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں عذاب آیا، یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن تک لگا تار چلتی رہی یہاں تک کہ یہ قوم نشانِ عبرت بن گئی۔

(3) حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود: کفرو شرک میں ڈوبی ہوئی قوم،قوم ثمود کی اصلاح کے لیے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا۔ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

سیرت الانبیاء کتاب میں ہے:آپ علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کی فراوانی دیکھو اور اپنا عمل دیکھو لہٰذا اطاعت کا راستہ اختیار کرو۔(سیرت الانبیاء،ص 236) ان کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرنے کا معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اونٹنی کو قتل کر دیا۔حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو عذابِ الٰہی سے بھی ڈرایا عذابِ الٰہی کی بات سن کر قوم نے کہا:اے صالح!اگر تم واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے ہو۔(سیرت الانبیاء،ص 238) پھر ایک گروہ نے حضرت صالح کو شہید کرنے کی کوشش کی وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے اور وہ قوم شدید زلزلے سے ہلاک کر دی گئی۔

(4) حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو رسالت عطا فر ما کر اہل سدوم اور موجود دیگر بستیوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو دینِ حق کی طرف بلائیں۔جہاں یہ لوگ بد ترین گناہوں میں مبتلا تھے وہاں لواطت جیسے برے فعل میں مبتلا تھے۔یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے اور ان کا مال لوٹ لیتے تھے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اس برے فعل سے منع کیا۔ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵) ( 19، الشعراء: 165) ترجمہ کنز العرفان: کیا تم لوگوں میں سے مردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔

بد فعلی قوم لوط کی ایجاد ہے اس لیے اس کو لواطت کہتے ہیں۔ یہ حرام قطعی اور اس کا منکر کافر ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت سن کر اس قوم نے سر کشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کیا تو آپ علیہ السلام کی دعا کے بعد ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

(5) حضرت شعیب علیہ السلام اور اہلِ مدین:حضرت شعیب علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے۔آپ کی قوم بت پرست اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرتی تھی، ان کی ہدایت کے لیے آپ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا۔آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔آپ علیہ السلام کی نصیحت سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ لوگ منکر ہو گئے۔ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(پ8،الاعراف:85) ترجمہ کنز العرفان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا، انہوں نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

جب یہ لوگ ایمان نہ لائے اور سرکشی کی تو حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا سے ان کو زور دار چیخ اور زلز لے سے تباہ کر دیا گیا۔