اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے جن پاک بندوں کو اپنے احکام پہنچانے کے لئے بھیجا ان کو نبی کہتے ہیں اور انبیا ئےکرام علیہم السلام ہی وہ بشر (انسان) ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے۔انبیا ئے کرام علیہم السلام عام مخلوق سے افضل ہیں۔ان کی تعظیم و توقیر یعنی عزت واحترام فرض ہے اور ان کی ادنیٰ توہین یعنی گستاخی یا تکذیب یعنی جهٹلا نا کفر ہے۔

قرآن میں اورانبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر:قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام سے پیارے آقا ﷺ تک اللہ پاک نے بہت نبی بھیجے جن کا ذکر رب کریم نے قرآنِ پاک میں فرمایا ان کے اسما یہ ہیں:

حضرت آدم علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت موسی ٰعلیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت یحیٰ علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام،حضرت یسع علیہ السلام،حضرت الیاس علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام،حضرت ادریس علیہ السلام،حضرت ذوالکفل،حضرت عزیر علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد عربی ﷺ۔

رب کریم نے اپنے خاص پیغمبروں کو لوگوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا تا ہے۔

1-قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم: فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۱۵) فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۶) (پ 24، حمٓ السجدۃ:15) ترجمہ کنز الایمان:تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا، اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور اور کیا انہوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ہے ان سے زیادہ قوی ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی۔ ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بے شک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔

مختصر واقعہ یہ ہے کہ قوم عاد احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضرموت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔انہوں نے زمین کو فسق سے بھردیا تھا اور دنیا کی قوموں کو اپنی سفاکیوں سے اپنے زور قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا۔یہ لوگ بت برست تھے۔اللہ پاک نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی سے روکا۔اس پر وہ لوگ آپ کے منکر ہوئے، آپ کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟چند آدمی آپ پر ایمان لائے لیکن وہ بہت تھوڑے تھے چنانچہ اسی سرکشی پر رب کریم نے ان پر سخت آندھی کا عذاب بھیجا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ حضرت ہود مومنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے۔ ( تفسیر نعیمی)

2-حضرت نوح علیہ السلام کی قوم: لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8، الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

مختصر واقعہ:حضرت نوح علیہ السلام 40 سال کی عمر میں معبوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو نیکی کی دعوت دیتے رہے۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح آپ کو جھٹلایا۔ ان میں تھوڑے آپ پر ایمان لائے اور نجات پائی۔

حضرت نوح علیہ السلام کو رب کریم نے ان کی قوم کی سرکشی کے سبب کشتی بنانے کا حکم دیا۔جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ مومنین کو لے کر اس پر سوار ہو گئے اور رب کریم نے آپ کی قوم کو جنہوں نے آپ کو جھٹلایا ان پرطوفان بھیج کر انہیں غرق کردیا۔ منقول ہے کہ یہ کشتی آپ نے دو سال میں تیا ر کی۔( تفسیر نعیمی)

3-قوم لوط علیہ السلام: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) (پ 20، العنکبوت:28-29) ترجمہ کنز الایمان:اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بے شک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا، کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف جب آپ کو مبعوث کیا گیا تو آپ کی قوم بے حیائی، راہ گیروں کو قتل کرنا ان کے مال کو لوٹ لینا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بدفعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے ان کی طرف گزرنا موقوف کردیا۔

لواطت کے مر تکب ہوئے یعنی مرد مرد سے، عورت عورت سے بد فعلی کرتے جو عقلاً ممنوع عرفاً قبیح وممنوع ہے جیسے گالی دینا،فحش بکنا، سیٹی بجانا، ایک دوسرے کو کنکر یاں مارنا،شراب پینا،تمسخر کرنا،گندی باتیں کرنا اوراس طرح کے قبیح افعال کی قوم لوط عادی تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر ان کو ملامت کی تو انہوں نے استہزا کیا۔جب آپ کو قوم کے راہ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں نزول عذاب کی دعا فرمائی۔آپ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے ان پر چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کو بر ساکر انہیں ہلاک کر دیا۔

4-اصحاب الایکہ واصحاب المدین حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵) (پ 8، الاعراف:85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کرنہ دو اور زمین میں انتظام کے فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کو رب کریم نے ایکہ اور مدین والوں کی طرف بھیجا۔ابتداءً توحید و عبادت کی ہدایت فرمائی کہ تمام امور میں سب سے اہم ہے،اس کے جن عادات قبیحہ میں وہ مبتلا تھے ان سے منع فرمایا۔

علما نے فرمایا کہ بعض انبیا کو حرب(جہاد و قتال) کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ ٰ،حضرت داود،حضرت سلیمان علیہم السلام وغیرہم۔بعض وہ تھے جنہیں حرب کا حکم نہ تھا۔ حضرت شعیب انہی میں سے تھے۔ آپ تمام دن وعظ فرماتے اور شب تمام نماز میں گزارتے۔

دیگر قوموں کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کو جھٹلایا یعنی عاداتِ قبیحہ،فساد اور ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے۔چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ہیبت ناک آواز میں کہا:موتوا جمیعا یعنی سب مر جاؤ۔ اس آواز کی دہشت سے ان کے دم نکل گئےاور سب مرگئے۔ اہلِ مدین زلزلہ اور ہولناک آواز سے اصحابِ ایکہ ہلاک ہوئے۔

حضرت ابنِ عبا س رضی اللہ عنہما نے فرمایا:کبھی دوا متیں ایک ہی عذاب میں مبتلا نہیں کی گئیں سوائے حضرت شعیب وصالح علیہما السلام کی امتوں کے۔ لیکن قوم صالح کو ان کے نیچے سے ہولناک آواز نے ہلاک کیا اور قوم شعیب کو اوپر سے۔

قومِ موسیٰ علیہ والسلام: ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۰۳) (پ 9، الاعراف:103) ترجمہ کنز الایمان: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اوراس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی تو دیکھو کیسا انجام ہوا مفسدوں(فساد کرنے والوں) کا۔

رب کریم نے ہرنبی کو کسی نہ کسی معجزے کے ساتھ خاص فرمایا اسی طرح حضرت موسیٰ کو اپنی نشانیوں یعنی معجزات واضحات مثلِ یدِ بیضا وعصا کے مبعوث فرمایا۔ آپ اپنا عصا زمین پر ڈالتے تو وہ ایک عظیم الشان اژ دہا بن جاتا جسے فرعون نے جادو کا نام دیا اور اپنی سرکشی میں مشغول رہا۔ فرعون خود کو زمین کا سردار و مالک کہتا تھا۔ چنانچہ اس کی سرکشی پرآپ نے رب کریم سے دعا کی اس کی اور اس کے ماننے والوں کی ہلاکت کی، لہٰذا ان پر پے درپے عذاب بھیجے گئے جیسے کثرتِ بارش،ٹڈی،پِسُو(یا جوئیں) ، مینڈک، پانی کا خون میں بدل جانا۔ ہر عذاب ایک ہفتے تک رہتا۔پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے ٹل جاتا،بالآخر ان کی سرکشی قائم رہتی اور ایمان نہ لاتے بالآخر دریائے نیل میں غرق کر دیا گیا۔