انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ زبیر، مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ زبیر، مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ
اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ
وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ: بےشک
قومِ سبا کے لیے ان کی آبادی میں نشانی تھی، دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا
بائیں طرف۔ اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکراداکرو۔ پاکیزہ شہر ہے اوربخشنے والا
رب۔
آیت
مبارکہ: 16:تو انہوں نے منہ پھیرا تو ہم نے ان پرزور کا سیلاب
بھیجا اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انہیں بدل دیئے جو کڑ وے پھل والے اور جھاؤ
والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔
تفسیر:سبا عرب کا ایک قبیلہ تھا۔ اس کی آب و ہوا اور زمین انتہائی صاف تھی۔اللہ پاک
نے ہر طرح کی خوشحالی دی ہوئی تھی۔ لیکن قومِ سبا شکر کے بجائے نا شکری کرنے لگی۔
اللہ پاک نے اس قوم کے لیے 13 انبیائے کرام بھیجے لیکن انہوں نے انبیاکو جھٹلایا۔اس قوم کے سردار کا نام حمار تھا یہ بہت متکبر تھا۔ جب
اس کے بیٹےکا انتقال ہوا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا(معاذ اللہ) اور اللہ سے
اعلان بغاوت کردیا۔ انبیا سے کہا کہ الله سے کہو کہ وہ ہم سے نعمتیں چھین لے کیونکہ
وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ ہمارا ہے۔ جب اس کی نافرمانی بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان
پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔
(2)
قوم لوط:تفسیر: ملک شام کا ایک صوبہ حمص تھا اور اس کا ایک
شہر سدوم تھا۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے کئی لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آئے
اور لوگوں کو مہمان نوازی کا بوجھ اٹھانا پڑا جس سے تنگ آکر شیطان کی باتوں میں
آگئے۔ شیطان نے اپنا خطرناک وار کیا کہ اگر تم اپنے مہمانوں سے نجات چاہتے ہو تو
جب کوئی تمہارے ہاں مہمان آئے تو اس کے ساتھ ز بر دستی بد فعلی کرو۔انہوں نے ایسا
ہی کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے کہا:ایسا مت کرو! یہ بہت سخت گناہ ہے۔ لیکن
انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی باتوں کا انکار کر دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام
اپنے ساتھ چند فرشتوں کو لے کر آسمان سے اترے اور حضرت لوط سے فرمایا: آپ مومنین
اور اپنے خاندان والوں کو لے کر اس بستی سے چلے جائیں۔ حضرت جبرائیل اس شہر کی
پانچوں بستیوں کو اٹھا کر آسمان کی طرف مڑے اور اوپر جا کر الٹ دیا۔ پھران لوگوں
پر پتھروں کی بارش برسادی جس سے قوم کے تمام افرادہلاک ہو گئے۔
(3)
قوم عاد:ترجمہ کنز الایمان: اور قوم عاد کی طرف ان کے
ہم قوم ہود کو بھیجا۔ ہودنے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں۔( تعلیماتِ قرآن، حصہ:3) تفسیر:قوم عاد مقام
احقاف میں رہتی تھی جو بہت بڑاریگستان تها۔ اس قوم کے لوگ بت پرست تھے۔ اللہ پاک نے
حضرت ہود علیہ السلام کو اس قوم کی راہنمائی کیلئے بھیجا۔اس قوم نے تکبر اور سرکشی
کی وجہ سے حضرت ہود کو جھٹلایا۔ اس کے بعدعذابِ الٰہی ہوا،تین سال تک بارش نہ ہوئی،ہرطرف
قحط سالی کا دور تها۔پھرانہی کی دعا پرایک کالابادل بھیجاجس سے یک دم کالی آندھی
آئی جو اس قدر زور دار تھی کہ ان کے اونٹوں،باغوں اور مکانوں کی تباہی عیاں ہوگئی۔اس
قوم کا کوئی فرد سلامت نہ بچا۔ حضرت ہود علیہ السلام اپنے ساتھ چند مومنین جوایمان
لائے انہیں لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔
(4)
قوم ثمود: فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ
سُقْیٰهَاؕ(۱۳) (پ 30، الشمس: 13) ترجمہ: تو اللہ کے رسول نے
ان سے فرمایا: الله کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری سے بچو۔
تفسیر: قوم ثمود نے بھی پیغمبر ِ وقت حضرت صالح علیہ
السلام کو جھٹلایا وہ کہنے لگے:ایک انسان جوہماری طرح کا ہے ہم اس کی پیروی کیوں
کریں! پھر اللہ پاک نے انہیں انہی کے مطالبہ پر معجزہ دکھایا کہ پہاڑ سے ایک اونٹنی
پیدا کی لیکن پھر بھی انہوں نے انکار کر دیا۔ اونٹنی بہت بڑی تھی، وہ گھاٹ کا سارا
پانی پی جاتی تھی۔تو طے یہ ہوا کہ ایک دن اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن لوگ۔اب
انہیں فکر ہونے لگی کہیں ختم نہ ہوجائے!تو انہوں نے اس اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں اور
اسے قتل کر دیا۔ توان پر اللہ کا عذاب آگیا، ان پر ایک زوردار چنگھاڑ بھیجی گئی
اور وہ ایسے ہوگئے جیسے روندھی ہوئی کوئی خاردار باڑھ ہو۔
(5) بنی اسرائیل:اور متنبہ کر دیاتھا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں
کہ تم ضرور فساد مچاؤ گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور سرکشی کرو گے۔اگر تم نے بھلائی
کی توبھلائی کی اپنی جانوں پر۔اگر تم نے برائی کی تو وہ ان کے لیے۔پھر جب دوسرے
وعدے کا وقت آیا تو ہم نے بندے بھیجے تاکہ بگاڑیں تمہارے چہروں کو۔(15، بنی اسرائیل)
تفسیر:بنی اسرائیل کے پاس جو دریا تھا جس سے وہ شکار
کرتے تھے،ہفتے والے دن وہاں بہت زیادہ مچھلیاں آتی تھیں۔ اللہ پاک نے منع کیا کہ
ہفتے والے دن شکار نہ کرنا۔یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ وہ لوگ ہفتے والے دن
گڑھے ک ہود تے اور پانی جمع ہونے دیتے اور پھلیاں پکڑتے اور اتوار والے دن شکار
کرتے یعنی بہا نہ کر لیتے تھے۔
اب جب نافرمانی کرنے لگے تو ان میں تین گروہ بن گئے:(1) ایک
وہ جونا فرمانی کرتا(2) دوسرا وہ جو کہتا تھا کہ یہ جو کرتے ہیں انہیں کرنے دو(3) تیسر
ا گر وہ وہ تھا جو انہیں ہدایت دیتا تھا،پر عذاب الٰہی ان لوگوں پر نازل ہوا جو
انہیں منع نہیں کرتے تھے اور جونا فرمانی کرتے تھے انہیں بندر بنا دیا گیا، صرف وہ
لوگ عذاب سے محفوظ رہے جو انہیں منع کرتے تھے۔
سبق:اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ اللہ پاک کی
نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ہر حال میں الله کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ احکامِ الٰہی پر
عمل کرنا چاہیے۔