انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ محمد وارث، شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ کریم نے مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث
فرمایا۔انبیائے کرام کو بھیجنے کا ایک بنیادی مقصد غیب کی خبر دینا ہے۔اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور اے لوگو!اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اپنے رسولوں
کو منتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(سیرت الانبیاء،ص 722)
حضرت الیاس علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا نام الیاس ہے۔قرآنِ کریم میں آپ کا نام ال یاسین بھی مذکورہے۔یہ
بھی الیاس کی ایک لغت ہے جیسے سینا اور سینین دونوں طور سینا ہی کے نام ہیں ایسے
ہی الیاس اور ال یاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں۔آپ علیہ السلام پر الله پاک نے بہت
انعامات فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: ترجمہ: اور بے شک الیاس رسولوں میں سے ہے۔آپ علیہ
السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بن
کر تشریف لائے تو انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ اللہ پاک نے ظالم باد شاہ کےشر سے
بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرمادیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک
زندہ ہیں اور قربِ قیامت وفات پائیں گے۔ اللہ کریم نے حضرت الیاس علیہ السلام کو بعلبک
کی طرف رسول بنا کر بھیجاتوآپ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے
فرمایا:ترجمہ:کیا تم ڈرتے نہیں؟کیا تم بعل(بت) کی پوجا کرتے ہو اور بہترین خالق کو
چھوڑتے ہو؟اللہ جو تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص749)
حضرت
شعیب علیہ السلام:
آپ علیہ السلام کاا سم گرامی شعیا بن امصیا ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت زکریا اور حضرت
یحیٰ سے پہلے مبعوث ہوئے اور آپ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی
پاک ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی۔آپ کے زمانۂ نبوت میں حزقیا نامی بادشاہ بنی
اسرائیل پر حکومت کرتا تھا جو آپ کا بہت فرمانبردار تھا۔اس کے انتقال کے بعد بنی
اسرائیل میں عملی اعتبار سے فساد برپا ہوا اور یہ لوگ نئے نئے خلاف شرع امور ایجاد
کرکے ان پر عمل میں مصروف ہوگئے۔اللہ پاک نے وحی کے ذریعے حضرت شعیا علیہ السلام
کو حکم فرمایا کہ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیے،چنانچہ آپ نے بنی اسرائیل کو کھڑے
ہوکر وعظ فرمایا اور انہیں بتایا کہ اللہ پاک سے متعلق کیا عقیدہ رکھنا چاہئے۔آپ
ان کو وعظ فرماچکے تو لوگ آپ کے دشمن ہوگئے اور قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔آپ وہاں سے
نکلے اور ایک درخت کے قریب گئے۔درخت پھٹ گیا اور آپ اس میں داخل ہوگئے۔شیطان نے آپ
کو دیکھا تو آپ کے کپڑے کا ایک کونہ ظاہر کردیا،جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو آری سے
چیر ڈالا،اس طرح آپ کا جسم مبارک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ (سیرت الانبیاء،ص159)
حضرت
نوح علیہ السلام:
حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے
رسول ہیں۔آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو
خفیہ،علانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی۔عرصۂ دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود
صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا۔جب قوم کے ایمان لانے اور راہ پر آنے کی کوئی امید
باقی نہ رہی تو آپ نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ نے اہلِ ایمان کو کشتی
میں سوار کرکے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔قرآنِ
کریم میں ارشاد فرمایا:ترجمہ:اور بے شک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی
اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ایک اور آیت میں فرمایا گیا:تمام جہاں والوں میں نوح
پر سلام ہو۔(سیرت انبیا،ص489)
حضرت
ذوالکفل علیہ السلام:آپ علیہ السلام اللہ کریم کے برگزیدہ پیغمبر ہیں جو
کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث کیے گئے۔آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے فرزند ہیں۔بعض
مفسرین نے تحریر فرمایا کہ ذو الکفل در حقیقت حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ہے۔آپ
صبر کرنے والے اللہ پاک کے قرب خاص کے لائق بندوں اور بہترین لوگوں میں سے
تھے۔قرآنِ کریم میں فرمایا:ترجمہ:اور اسماعیل اور یسع اورذوالکفل کو یاد کرو اورسب
بہترین لوگ ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص727)
حضرت یسع علیہ
السلام: آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہیں۔ایک قول کے مطابق آپ
اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں۔آپ حضرت الیاس کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکمِ
الٰہی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و نصیحت فرمائی نیز کفار کو دینِ حق کی طرف بلانے
کا فریضہ سرانجام دیا۔اللہ کریم نے آپ کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا
فرمائی۔قرآنِ کریم میں اللہ کریم نے آپ کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا۔چنانچہ
ارشاد ربانی ہے:اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کویاد کرو سب بہترین لوگ ہیں۔
حضرت
محمدﷺ:
آپ ﷺساری کائنات کی طرف نبی و رسول بناکر مبعوث فرمائے گئے۔آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن
کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند لائنوں میں ممکن نہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
آپ ﷺ واقعہ
فیل سے 55 دن بعد 12 ربیع الاول، اپریل571ء کو مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں پیدا
ہوئے۔جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس وقت آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب طوافِ کعبہ میں
مشغول تھے۔خوشخبری سن کر آپ خوشی خوشی حرمِ کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش
محبت میں اپنے پوتے کو سینے سے لگایا،پھر کعبہ میں لے جاکر خیر و برکت کی دعا
مانگی اور محمد نام رکھا۔(سیرت الانبیاء،ص843)