حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت محمد
ندیم،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور، سیالکوٹ
آقا کریم ﷺ شعبان کے اکثر روزے رکھا کرتے تھے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہﷺ شعبان سے زیادہ
کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور
فرمایا کرتے:اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ پاک اُس وقت تک اپنا فضل نہیں
روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔(بخاری،1/ 648،حدیث:1970)
شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے
تعلیباً (یعنی غلبے اور زیادت کے لحاظ سے )کُل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے)سے
تعبیر کر دیا جیسے کہتے ہیں:فلاں نے پوری رات عبادت کی،جب کہ اُس نے رات میں کھانا
بھی کھایا ہو اور ضروریات سے فراغت بھی کی ہو،تغلیباً اکثر کو کل کہہ دیا۔مزید
فرماتے ہیں:حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزہ
رکھے۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رمضان کے روزوں پر اثر پڑے
گا۔یہی محمل(یعنی مراد مقصد) ہے ان احادیث(مثلاً ترمذی،2/ 183،حدیث:738 وغیرہ) کا
جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔
(ترمذی،2/183،حدیث:738)( نزہۃ القاری،3/380،377)
( آقا کا مہینا، ص6)
آپ نے پڑھا کہ ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ
اس ماہِ مبارک کو کس قدر پسند فرماتے، حالانکہ اس مہینے میں روزے فرض نہیں مگر پھر
بھی آپ کثرت سے روزہ رکھا کرتے۔اب ذرا غور
کیجئے کہ پیارے آقا، دو جہاں کے داتا ﷺ سند المعصومین ہو کر بھی اس ماہِ مبارک کے
اکثر دن روزے کی حالت میں گزاریں تو ہم گناہگاروں کو اس ماہ میں روزے رکھنے کی کتنی
ضرورت ہے!ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے
روزوں کے علاوہ نفل روزے رکھنے کی بھی عادت بنائیں کہ
اس میں ہمارے لئے بے شمار دینی فوائد کے
ساتھ ساتھ کثیر دنیوی فوائد بھی ہیں۔
دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت،گناہوں سے بچت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں
تک دنیوی فوائد کا تعلق ہےتو روزے میں دن اور رات کے اوقات میں کھانے پینے میں صرف
ہونے والے وقت اور اخراجات،پیٹ کی اصطلاح اور معدے کو آرام ملنے کے ساتھ ساتھ دیگر
کئی بیماریوں سے حفاظت کا سامان ہےاور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ اس سے اللہ پاک
راضی ہو جاتا ہے۔ہمیں بھی چند دن کی تکلیف سہہ کر بے شمار دینی اور دنیوی فوائد کے
حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔مزید یہ کہ نفل روزے رکھنے کا اجر تو اتنا ہے کہ ہم روزے
رکھتی ہی چلے جائیں۔
آقا کریم،سرورِ کائنات،رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:جس
نے ثواب کی نیت سے یا ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اُس سے
دوزخ سے چالیس 40 سال کا فاصلہ دور فرمادے گا۔
(کنز العمال ، 8 / 255 ،حدیث:(24148
اللہ پاک کے حبیب ﷺ کا ایک اور فرمانِ رغبت نشان ہے:اگر
کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا تو زمین بھر
سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہو گا۔اس کا ثواب تو قیامت کے دن ہی ملے گا۔
(مسند ابی یعلی،5/353،حدیث:6104)(فیضانِ
سنت،ص1331)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا
رسول اللہﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی
عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس
جیسا کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو
کیونکہ اس کی کوئی مثل نہیں۔
(نسائی،ص370،حدیث:2220)(فیضانِ سنت،ص1338)