رمضان شریف میں روزے رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن
اس ماہ کے علاوہ روزے رکھنا بھی ثواب کا کام ہے۔روزے
ہمارے لیے بخشش کا سامان کریں گے۔پیارے آقا ﷺ فرض روزوں کے علاوہ بہت سے نفل روزے
بھی رکھتے تھے۔
روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرنے کے
لیے روزے سے بہتر اور کوئی عمل نہیں۔اللہ پاک نے بھی روزے کی فرضیت کا مقصد تقویٰ
قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ
عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183) ترجمہ:اے
ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)
حضور ﷺ کا روزہ رکھنا:یہی
سبب تھا کہ حضور ﷺ کو اس عبادت سے اتنا شغف تھا کہ آپ اکثر روزے سے رہتے تھے اور صیامِ
وصال یعنی پے در پے بغیر افطار کیے روزے رکھتے بلکہ ہر مہینے میں تین روزے ضرور
رکھتے۔رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔آپ اس ماہِ مقدس کی
تیاری شعبان سے ہی شروع فرما دیتے تھے اور
شعبان میں دوسرے مہینوں کی بنسبت کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
حضور ﷺکی حیاتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حالتِ
حضر میں کبھی روزہ قضا نہیں فرمایا تاہم سفر کے دوران آپ کا معمول تھا کہ کبھی
روزہ رکھ لیتے اور کبھی قضا فرما لیتے۔یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے تھا کہ آپ کی
سراپا رحمت ذات کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ اپنی امت کو مشقت میں ڈالیں۔
حضور ﷺکی روزوں سے محبت احادیثِ مبارکہ
کی روشنی میں:
حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کے روزے رکھنے کے
متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:کبھی
آپ اس طرح متواتر روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزے ہی رکھیں گے اور جب روزے نہ
رکھتے تو ہم لوگ کہتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے۔(نسائی،ص387،حدیث:2354)فرماتی ہیں:مدینہ منورہ تشریف آوری کے
بعد سے رمضان المبارک کے علاوہ آپ نے کسی پورے مہینے کے روزے رکھے۔
(مسلم ،ص863،حدیث:2724)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور
ﷺ ہر مہینے کی ابتدا میں تین دن روزہ رکھتے تھے اور جمعہ کے دن بہت کم افطار
فرماتے تھے۔(ترمذی ،2/185،حدیث:742)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضورﷺ کسی ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار
اور پیر کو روزہ رکھ لیتے اور دوسرے ماہ منگل،بدھ اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے
تھے۔
(ترمذی،2/186،
حدیث:746)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے:حضور نبی اکرم
ﷺنے مہینے کے آخر میں وصال کا روزہ رکھ لیا تو لوگوں نے بھی شوق سے صومِ وصال رکھ
لیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ مہینا ختم نہ ہوتا تو میں صومِ وصال کو اتنا طویل
فرماتا کہ ضدی لوگ اپنی ضد چھوڑ دیتے۔بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو اس حال
میں رہتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔
(بخاری،1/645، حدیث: 1961)(بخاری،4 /488، حدیث:7242)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:پیر اور جمعرات کے دن اعمال بارگاہِ
خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں۔میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش کیا جائے اورمیں
روزہ سے ہوں۔(ترمذی،2/187،حدیث: 747)