حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت رمضان
احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
روزہ داروں کے لئے بخشش کی بشارت:
1-قرآنِ پاک میں
روزوں کے بارے میں ارشادِ باری ہے:وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ
وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ
مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ22،الاحزاب:35)ترجمہ:اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی
پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور
یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
2-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183)ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض
ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
تفسیرصراط الجنان:اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے
لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔
(تفسیر خازن،1 / 119)
روزہ بہت قدیم عبادت ہے:آیت میں فرمایا گیا کہ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے
فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف
ہوتے تھے۔یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔(در مختار،3/ 383)
روزے کا مقصد:آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔روزے
میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا
جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور
حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی
چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ
الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱)
(پ30،النزعت:40،41)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے
سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
حضورﷺ روزوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:آئیے!احادیثِ
مبارکہ ملاحظہ فرما ئیے:
1-حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یارسول
اللہ ﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل
نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا
کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ
اس کا کوئی مثل نہیں۔(نسائی،ص370،
حدیث:2220)
2- روزے کو آپ ﷺ بہت محبوب رکھتے تھےاور آپ کی عادت ِمبارکہ
میں یہ چیز بکثرت شامل تھی، اسی وجہ سے ہر مہینے کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ روزوں کی
فضیلتوں کو بیان کیا گیا۔پیر شریف کے روزے کی فضیلت کو الگ بیان کیا گیا۔چنانچہ
پوچھا گیا:یا رسول اللہ ﷺ!آپ پیر کو روزہ رکھتے ہیں!تو اللہ پاک کے رسول ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اسی دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔
(مسلم،ص 591 ،حدیث: 198)( صبحِ بہارا ں، ص21)
3- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے
اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔
(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
4- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک مہینے
میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے منگل، بدھ اور جمعرات
کا۔(ترمذی،2/186، حدیث:746)یعنی میرے پیارے نبی کریم ﷺ ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے
روزے تقسیم کر دیتے تھے تاکہ کوئی دن حضور پاک ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے،
گویا آپ ﷺ مہینے میں تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے رکھتے تھے،نبی
پاک ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے، جیسے ہم چاند سے روشنی پاتے ہیں اور چاند
سورج سے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
5- اُمّ المُومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے روا یت ہے کہ حضور ﷺ پُورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔فرماتی ہیں:میں
نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ ﷺ! کیا سب مہینو ں میں آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان
کے روزے رکھنا ہے؟توشفیعِ روز ِشمار ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک اِس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور
مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وقتِ رُخصت آئے اور میں روزہ دارہوں۔
( مسندِابی یعلی
،4/277،حدیث:4890)
جنت کا انوکھا درخت:حضرت قیس بن زید جُہَنّی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کےپیارے محبوب ﷺ
کا فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اس کےلیے جنت میں ایک
درخت لگائےگا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور
خوش ذائقہ ہوگا،اللہ پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھائے گا۔
(معجم کبیر،18/366،حدیث:935)(مدنی
پنج سورہ، ص294)
جہنم سے دوری:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم ﷺ کا فرمانِ عافیت
نشان ہے:جو اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو اللہ پاک اسے جہنم سے
ستر(70)سال کی راہ دور رکھے گا۔(بخاری،2/265،حدیث:2840)یہاں روزے سے مراد نفل روزہ ہے۔اس لیے صاحبِ مشکوۃ یہ حدیث نفل روزے کے باب میں
لائے ہیں یعنی بندہِ مومن اگر نفل روزہ رکھے اور اللہ پاک رحیم و غفور اس کو اپنے
کرم سے قبول کرے تو دوزخ میں جانا تو کیا وہ دوزخ کے قریب بھی نہ ہوگا اور وہاں کی
ہوا بھی نہ پائے گا۔(مراۃ المناجیح،3/187)