حضور نبی اکرم ﷺ اللہ پاک کے سب سے بڑھ کر محبوب رسول ہونے کے باوجود اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں میں
اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ
ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کی عبادت
کا طریقہ کیا تھا اور وہ کس وقت کون سی
عبادت کرتے تھے!لیکن حضور پر نور ﷺ کے عبادات کو آپ کے صحابہ علیہم
الرضوان نے ملاحظہ فرمایا اور گھر میں جو عبادات کرتے تھے اسے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے اپنی یاداشت میں
محفوظ کیا اور ساری امت کو بتا دیا ۔
آقا ﷺ کی عبادات میں سے ایک عبادت روزہ بھی ہے۔روزے 10 شعبان 2 ھ میں فرض ہوئے۔آپ روزے فرض ہونے
سے پہلے بھی روزہ دار رہا کرتے۔رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی روزہ دار ہی رہتے تھے۔سال کے باقی مہینوں
میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا
کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے،پھر چھوڑ دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ کبھی روزہ نہیں رکھیں
گے۔خاص کر ہر مہینے میں ایامِ بیض(چاند کی14،13اور15تاریخ)کے روزے،دو شنبہ و جمعرات
کے روزے،عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔کبھی کبھی آپ صومِ وصال بھی رکھتے تھے،(یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ)،لیکن اپنی امت کو ایسا
روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!
آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں!ارشاد فرمایا:تم
میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اوروہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری،1/645،حدیث:1961)
رسول اللہ ﷺ نےنفلی روزوں کے بارے میں فرمایا:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اس کے لیے جنت
میں ایک درخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل
انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد سے میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا، اللہ
پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا
پھل کھلائے گا۔(معجم کبیر ،18/366، حدیث:935(
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت
فرماتی ہیں:نبیوں کے سر تاج، صاحبِ معراج ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال
رکھتے تھے۔(ترمذی ،2/186، حدیث: 745)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:پیر اور
جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ
میں روزہ دار ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
حضور
ﷺ نے فرمایا:جس نے رضائے الٰہی کیلئے ایک دن کا نفل
روزہ رکھا تو اللہ پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ
مسافت (یعنی فاصلے ) تک دور فرما دے گا۔
(کنز
العمال،8/255، حدیث:24149)
فرمایا:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین
بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے
دن ملے گا۔(مسند ابی یعلی ،5/253، حدیث: 6104)