اللہ پاک اپنے کلام قرآنِ مجید کے پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت 35 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ- اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ22،الاحزاب:35)ترجمہ:اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ(اور روزے والے اور روزے والیاں)کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبدُ اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس میں فرض و نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔

(تفسیر نسفی، 2 / 345) ( فیضان رمضان،ص326)

اللہ پاک کے محبوب ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔(جامع صغیر،ص146، حديث: 2415)

ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ اللہ پاک کی بہت زیادہ عبادت فرمایا کرتے تھے۔آپ ﷺ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کا بھی بہت اہتمام فرمایا کرتے۔

شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے،خاص طور پر شوال کے 6 روزے،ہر مہینے ایامِ بیض کے روزے، عاشورا کے روزے،عشرۂ ذو الحجہ کے روزے یہ معمولاً رکھا کرتے تھے۔(سیرتِ مصطفی ، ص597،596)

آئیے!حضور ﷺ کے روزوں سے متعلق چند احادیث ملاحظہ کیجئے کہ آقا ﷺ روزوں سے کتنی محبت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ

دس محرم یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھنا سنت ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سلطانِ دوجہاں ﷺ کو کسی دن کے روزے کو اور دن پر فضیلت دے کر رغبت فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشورا کا دن اور یہ کہ رمضان کا مہینا۔ (بخاری ،1 / 657 ،حدیث: 2006)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسولِ کریم ﷺنے عاشورا کو روزہ خود رکھا اور ا س کے رکھنے کا حکم فرمایا۔(مسلم،ص573،حدیث:133(

صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:عاشورا کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو،عاشورا کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔

(مسند امام احمد، 1 / 518، حدیث:2154)

ہمارے پیارے آقا کریم ﷺ کا شعبان میں مبارک عمل:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ شعبان میں(نفل) روزے رکھتے ہیں اس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے!فرمایا:رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے، لوگ اس سے غافل ہیں،اس میں لوگوں کے اعمال اللہ پاک کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔(نسائی، ص 387 ،حدیث: 3354)

سبحان اللہ! ہمارے کریم آقا ﷺ معصوموں کے سردار ہونے کے باوجود یہ پسند فرماتے کہ میرا عمل جب اللہ پاک کی بارگاہ میں اٹھایا جائے تو میں روزہ دار ہوں۔اس سے ظاہر ہوا کہ آپ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں روزہ دار ہونا پسند فرمایا، اس سے آپ کی روزوں سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے:حضور اکرم ﷺ بھی شوال المکرم کے 6 روزے رکھا کرتے اور آپ نے اس کے کئی فضائل بھی بیان فرمائے ہیں ۔چنانچہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ شوال میں روزے رکھے، تو ایسا ہے جیسے دہر(عمر بھر) کا روزہ رکھا۔(مسلم،ص 592 ،حدیث: 1164)

بہتر ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں البتہ اکٹھے بھی رکھے جاسکتے ہیں۔

ایامِ بیض کے روزے:ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،ہر مہینے میں 3 دن کے روزے اور فجر(کے فرائض) سے پہلے 2 رکعتیں( یعنی 2 سنتیں)۔(نسائی، ص 395 ،حدیث: 2413)

ایامِ بیض میں روزہ رکھنے کی آقا کریم ﷺ کی ایسی پیاری عادتِ مبارکہ تھی کہ سفر میں ہوتے یا حضر(قیام) میں ایامِ بیض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے ( بہتر یہ ہے کہ یہ روزے چاند کی 13، 14، 15 تاریخ کو رکھے جائیں)

غرض احادیثِ طیبہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات نظر آتی ہے کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ فرض روزوں کے ساتھ ساتھ بہت نفل روزے بھی رکھتے اور اس کے فضائل بھی بیان فرماتےیعنی آپ کو روزوں سے محبت تھی۔اللہ پاک اپنے محبوب ﷺ کے طفیل ہمیں بھی سارے فرض روزوں کے ساتھ ساتھ نفل روزے بھی عافیت کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ