روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔(تفسیر خازن،1 / 119)

ہمارے پیارے آقا ﷺ کو روزوں کے ساتھ بہت محبت تھی جس کا اندازہ ان احادیثِ مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے۔چنانچہ

آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ ہوجاتے:ہمارے پیارے آقا ﷺ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ الٰہی میں بہت زیادہ مگن ہو جایا کرتے تھے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج حضور ﷺ اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر منور پر تشریف نہ لاتے۔(تفسیر در منثور،1 /339)

آقاﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے تھے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان آتا تو حضور ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہوجاتا، آپ نماز کی کثرت فرماتے ،خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔(شعب الایمان،3 / 310 ،حدیث: 3620)

ماہِ رمضان میں ہمیں بھی اللہ پاک کی خوب خوب عبادت کرنی چاہیے اور ہر وہ کام کرنا چاہیے جس میں اللہ پاک اور اس کے نبی ﷺ کی رضا ہو۔اگر اس پاکیزہ ماہ میں بھی کوئی اپنی بخشش نہ کروا سکا تو پھر کب کروائے گا؟

ہمارے پیارے آقا ﷺ رمضان المبارک کے ساتھ ساتھ نفلی روزوں کا بھی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

پیر اور جمعرات کا روزہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اعمال پیر و جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں۔لہٰذا میں چاہتاہوں کہ میرے عمل اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔(ترمذی،2/187،حدیث: 747)

روزوں کی تقسیم :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،فرماتی ہیں کہ رسولﷲ ﷺ ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے میں منگل،بدھ اور جمعرات کا۔

(ترمذی،2/186، حدیث:746)

یعنی آپ نے ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے روزے تقسیم کردیئے تھے تاکہ کوئی دن حضور انور ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے۔چنانچہ ایک مہینے میں تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے رکھتے تھے جبکہ جمعہ کے روزے کی تو عادتِ کریمہ تھی ہی جیساکہ ابھی حدیثِ پاک میں گزرا۔ہم لوگ دنوں سے برکت حاصل کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے جیسے ہم چاند سے روشنی پاتے ہیں اور چاند سورج سے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)

رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینا بھر آپ روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے ،پھر چھوڑ دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایامِ بیض کے روزے،دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔کبھی کبھی آپ صَومِ وصال بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ (ﷺ)!آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں!ارشاد فرمایا:تم میں مجھ جیسا کون ہے؟میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔

(سیرت مصطفی،ص596 ،597)

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں روزوں کی محبت عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ