پہلی صفات : غیب کی خبریں ہونا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی خبروں کی وحی کی جاتی تھی چناچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕترجَمۂ کنزُالایمان: یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔(پ3،آلِ عمرٰن:44) یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام کو غیب کی خبریں تھیں۔

دوسری صفت : صالحین میں شمار ہونا۔حضرت زکریا علیہ السّلام صالحین میں سے تھے چنانچہ اللہ پاک قراٰن میں خود فرماتا ہے: وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ (پ 7 ،الانعام: 85)

تیسری صفت : اللہ کی تسبیح کا درس دینا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام لوگوں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا درس دیتے تھے۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا(۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان:پس وہ اپنی قوم کی طرف مسجد سے باہر نکلے تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرتے رہو۔(پ16،مریم:11)

چوتھی صفت : نیک کاموں میں جلدی کرنا اور ڈر سے اور رغبت سے اللہ کو پکارنا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام نیک کاموں میں جلدی کرتے اور ڈر اور بڑی رغبت سے اللہ کو پکارتے تھے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرماتا ہے : اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔

(پ17، الانبیآ:90)

تفسیر مدارک میں اس آیت کے تحت لکھا ہے یعنی جن انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا ان کی دعائیں اس وجہ سے قبول ہوئیں کہ وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور اللہ پاک کو بڑی رغبت سے بڑے ڈر سے پکارتے تھے اور اللہ کے حضور دل سے جھکنے والے تھے ۔ (تفسیر مدارک بحوالہ صراط الحنان)