محمد حسان رضا عطاری
(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق باب المدینہ کراچی، پاکستان)
تعارف: حضرت زكريا علیہ السّلام اللہ پاک کے مقرب نبی اور برگزیدہ
بندے ہیں جو حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے والد ماجد ہیں آپ نہایت زاہد و عابد اور
تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرنے والے تھے اور مستجاب الدعوات تھے ۔ قراٰنِ پاک میں
حضرت زکریا علیہ السّلام کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے ۔ سوره آل عمران اور سورۃ
الانبيآء۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : هُنَالِكَ دَعَا
زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً
طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے
رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔(پ3،آلِ
عمرٰن:38)
جب حضرت زکریا علیہ السّلام
نے حضرت مریم بنت عمران رضی الله عنہا کو اپنے زیر کفالت لیا تو دیکھا کے اُن کے
پاس بے موسم کے پھل موجود ہیں ، استفسار پر حضرت مریم نے جواباً کہا کہ یہ من
عند اللہ ہیں اور اس ہی کی کرم نوازی ہے۔ یہ تمام ماجرا سننے کے بعد حضرت زکریا نے اسی محراب کے پاس تبرکاً دعا مانگی اس عقیدے
کے ساتھ جو رب حضرت مریم کو بے پھل موسم دینے پر قادر ہے وہ رب مجھے میرے بڑھاپے اور میری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد دینے پر بھی قادر ہے ۔(ماخوذ تفسیر صراط الجنان)
تفسیر سے معلوم ہونے والی صفات:
(1) حضرت زکریا علیہ السّلام اپنے رب کی رحمت سے
پر امید رہنے والے تھے ۔
(2) آپ علیہ السّلام بہت ہی
صابر و شاکر انسان تھے ۔
(3)آپ علیہ السّلام اپنے رب کی
طرف رغبت رکھنے والے اور دعا گو تھے ۔
(4)آپ علیہ السّلام دور اندیش
بھی تھے کیوں کے اپنے وارث کا طلب کرنا تا کہ وہ وارث انکے انتقال کے بعد بھی تبلیغ
توحید جاری رکھے اس بات پر دلالت کرتا ہے ۔
اسی کا ذکر سورۃُ الانبیآء میں
بھی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ
فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور زکریا
کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر
وارث۔
حضرت زكريا علیہ السّلام نے یہ
دعا فرمائی کہ اے اللہ مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور میرے لئے کوئی وارث(اولاد) بنادے
اور تو سب سے بہتر وارث ہے ۔ یعنی اگر تو اپنی مشیت سے میرا کوئی وارث یعنی اولاد
نہ بھی بنائے تب بھی میں تیری رضا پر راضی ہوں کیوں کے تو سب سے بہتر وارث ہے۔
(ماخوذ تفسیر نعیمی )
اس آیت سے یہ بھی معلوم
ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السّلام راضی
برضائے رب تھے ۔ سورۃُ الانبیآء میں اللہ
کریم نے حضرت سلیمان، لوط، نوح، ابراہیم،
اسماعیل، ایوب، ادریس، ذوالکفل اور ذوالنون علیہم السّلام کا ذکر فرمانے کے بعد
حضرت زكريا علیہ السّلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان تمام انبیآء کے متعلق ارشاد
فرمایا : اِنَّهُمْ كَانُوْا
یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا
لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اُسے یحیی عطا فرمایا اور
اس کے لیے اس کی بی بی سنواری بےشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے اور
ہمارے حضور گڑگڑاتے ہیں۔(پ17، الانبیآ:90)
مذکورہ آیت میں جنابِ زکریا علیہ
السّلام کی چند صفات مذکور ہیں۔ (1) وہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنے والے تھے۔(2)
امید اور خوف سے اللہ کو پکارنے والے تھے۔
(3) اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے تھے۔
اللہ پاک ہمیں حضرت زکریا علیہ
السّلام کی ان با برکت صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ان پر بے شمار رحمتیں
نازل فرمائے اور انکے صدقے میں ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاه خاتم النبیین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم