محمد اسماعیل عطّاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
بخاری کھارادر کراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے ہدایتِ خلق کے
لئے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بھیجا جن میں سے حضرت زکریا علیہ
السّلام بھی ہیں آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کے والد اور حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے خالو تھے۔
آپ علیہ السّلام کے چند اوصاف ملاحظہ
فرمائیں :۔
(1) آپ علیہ السّلام نے حضرت
مریم رضی اللہ عنہا کی کفالت و پرورش فرمائی، ان کے پاس بے موسم پھلوں کی آمد دیکھ
کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحییٰ علیہ
السّلام کی صورت میں عظیم فرزند عطا ہوئے۔
(2) اپنی محنت سے کما کر
کھانا انبیائے کرام علیہم السّلام کی پاکیزہ سیرت رہی ہے۔ اسی لئے حضرت زکریا علیہ
السّلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے تھے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حضرت
زکریا علیہ السّلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔(مسلم، كتاب الفضائل،
باب من فضائل زكريا علیہ السلام، ص 994، حديث: 2379)
(3) آپ علیہ السّلام انتہائی
پرہیزگار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السّلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے
تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ السّلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ
السّلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے
کے دوران) کچھ لوگ آپ علیہ السّلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی
دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ
السّلام کے طرزِ عمل پر تعجب ہوا کہ انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں
اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے
کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ السّلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان
کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ
مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو، اب
اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت
کرتی نہ مجھے ، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔ (احياء وعلوم الدين، كتاب النیۃ والاخلاص
والصدق، الباب الاول في النیۃ، بيان تفصيل الاعمال المتعلقۃ بالنیۃ، 5/100)
اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب اجرت پر کسی کا کام
کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔
(4) آپ علیہ السّلام کے فرزند
حضرت یحییٰ علیہ السّلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ و زاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السّلام
نے ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ
تجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے ابا جان
!حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل
ہے، جسے وہی طے کر سکتا ہے جو اللہ پاک کے خوف سے بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت
زکریا علیہ السّلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔ (احياء علوم الدين، كتاب الخوف والرجاء، بيان
احوال الانبياء...الخ، 4/226)
اللہ اکبر! حضرت یحییٰ علیہ السّلام
اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی، حتمی قطعی طور پر بخشش
و مغفرت و نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں، اس کے
باوجود خوف خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر
ڈرنا اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔
(5) اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ السّلام پر بہت سے
انعامات فرمائے ، ان میں سے چند یہ ہیں: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بطورِ خاص
ان انبیاء علیہم السّلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے
نعمتِ ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان
والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
اللہ پاک ہمیں ان کی سیرت پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم