محمد اویس نعیم قادری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ
گوجرخان ضلع روالپنڈی پاکستان )
حضرت زکریا علیہ
السّلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی، حضرت یحیی (علیہ السّلام) کے والد اور مریم رضی
اللہ عنہا کے خالو تھے۔ آپ علیہ السّلام حضرت مریم رضی الله عنہا کی کفالت و پرورش
فرمائی ، ان کے پاس بے موسمی پھلوں کی آمد دیکھ کر بارگاہ الہی میں اولاد کی دعا
مانگی جو قبول ہوئی اور آپ کو حضرت یحیی (علیہ السّلام) کی صورت میں عظیم فرزند
عطا ہوئے۔ یہودیوں نے سازش کر کے آپ علیہ
السّلام کو شہید کروادیا۔ یہاں 2 ابواب میں آپ علیہ السّلام کی سیرتِ مبارکہ بیان
کی گئی ہے جس کی تفصیل ذیلی سطور میں ملاحظہ ہو۔
باب (1) حضرت زکریا ( علیہ السّلام)
کے واقعات کے قراٰنی مقامات: قراٰنِ پاک
میں آپ علیہ السلام کا مختصر تذکرہ سورۂ
انعام آیت نمبر 85 میں اور تفصیلی ذکرِ خیر درجہ ذیل 3 سورتوں میں کیا گیا ہے: (1)سورۂ
آل عمران، آیت 37 تا 44 (2) سورۂ مریم، آیت1 تا 11 (3) سورۂ انبیاء، آیت: 89
، 90
حضرت زکریا ( علیہ السّلام) کا تعارف نام و نسب : آپ علیہ السلام کا مبارک
نام زکریا اور ایک قول کے مطابق نسب نامہ یہ ہے: زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق بن حشبان بن داؤد
بن سلیمان بن مسلم بن صدیقہ بن برخیا بن بلعاطۃ بن ناحور بن شلوم بن بہفا شاط بن اینا
من بن رحبعام بن حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام۔
پیشہ: اپنی محنت سے کما کر کھانا انبیاء کرام علیہم السلام کی پاکیزہ
سیرت رہی ہے۔ اس لیے حضرت زکریا علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی ہی سے کھاتے
تھے ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: حضرت زکریا علیہ السلام لکڑی سے اشیاء بنانے کا کام کیا کرتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم
السّلام میں سے کسی نبی علیہ السلام نے اپنی نبوت کو ذریعہ معاش نہیں بنایا بلکہ
کائنات کے یہ معزز ترین حضرات مختلف پیشے اختیار کر کے اپنا گزر بسر کیا کرتے تھے۔
تقوی: آپ علیہ السلام انتہائی پر ہیز گار تھے۔ مروی ہے کہ آپ علیہ
السلام اجرت پر کسی کی دیوار گارے سے بنا رہے تھے اور اس کے بدلے میں وہ آپ علیہ
السلام کو ایک روٹی پیش کرتے کیونکہ آپ علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی
کھانا تناول فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ (کھانے کے دوران ) کچھ لوگ آپ علیہ السلام کی
بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے کھانے کی دعوت نہ دی یہاں تک کہ خود کھانا کھا کر
فارغ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں کو آپ علیہ السلام کے طرز عمل پر تعجب ہوا کہ
انتہائی سخی اور زاہد ہونے کے باوجود آپ نے ہمیں اپنے کھانے میں شریک کیوں نہیں کیا
اور یہ گمان کیا کہ اگر ہم ہی پہل کرتے ہوئے کھانا مانگ لیتے تو اچھا رہتا۔ آپ علیہ
السلام نے (اپنے طرز عمل کی حکمت بیان کرتے ہوئے) ان سے ارشاد فرمایا: میں ایک قوم
کے ہاں اجرت پر کام کرتا ہوں اور وہ مجھے ایک روٹی اس لیے دیتے ہیں تاکہ میرے اندر
ان کا کام کرنے کی طاقت پیدا ہو ، اب اگر میں تمہیں اپنے حصے کی روٹی میں سے کچھ
کھلاتا ہوں تو یقیناً یہ نہ تمہیں کفایت کرتی نہ مجھے، مزید یہ کہ میرے اندر ان کا
کام کرنے کی طاقت کم ہو جاتی۔
اس واقعے میں نصیحت ہے کہ جب
اجرت پر کسی کا کام کریں تو اس کے تمام تر تقاضوں کو بھی پورا کریں۔
فرزند پر اظہارِ شفقت: آپ علیہ السلام کے فرزند حضرت یحیٰ علیہ
السلام پر اللہ پاک کا خوف بہت غالب تھا جس کے سبب وہ بکثرت گریہ وزاری کرتے تھے ، ایک دن آپ علیہ السلام نے
ان سے فرمایا: اے پیارے بیٹے ! میں نے تو اللہ پاک سے یہ دعا مانگی تھی کہ وہ تجھے
میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے ابا جان ! حضرت
جبریل علیہ السلام نے مجھے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے ، جسے
وہی طے کر سکتا ہے جو (اللہ پاک کے خوف سے ) بہت رونے والا ہو۔ اس پر حضرت زکریا
علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے فرزند : ٹھیک ہے تم روتے رہو۔
اللہ اکبر! حضرت یحیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے
برگزیدہ نبی، ہر طرح کے گناہ سے پاک اور یقینی حتمی، قطعی طور پر بخشش و مغفرت و
نجات اور جنت میں اعلیٰ ترین مقامات کا پروانہ حاصل کیے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود
خوفِ خدا سے گریہ وزاری کا یہ حال ہے تو ہم گناہگاروں کو رب قہار سے کس قدر ڈرنا
اور اس کے خوف سے کس قدر رونا چاہئے۔
اوصاف: دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح آپ علیہ السلام بھی
نیکیوں میں جلدی کرنے والے، اللہ پاک کو بڑی رغبت اور بڑے ڈر سے پکارنے والے اور
اللہ پاک کے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ
یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًاؕ-وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک وہ نیکیوں میں جلدی
کرتے تھے اور ہمیں بڑی رغبت سے اور بڑے ڈر
سے پکارتے تھے اور ہمارے حضور دل سے جھکنے والے تھے۔ (پ17، الانبیآ:90)
انعاماتِ الہی: اللہ پاک نے حضرت زکریا علیہ
السلام پر بہت سے انعامات فرمائے ، ان میں سے 6 انعامات یہ ہیں :
(1تا3) اللہ پاک آپ علیہ السلام کو بطورِ خاص ان
انبیاء علیہم السلام کے گروہ میں نام کے ساتھ ذکر کیا جنہیں اللہ کریم نے نعمتِ
ہدایت سے نوازا، صالحین میں شمار فرمایا اور جنہیں ان کے زمانے میں سب جہان والوں
پر فضیلت عطا کی۔ فرمانِ باری ہے : وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ
الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور
الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اور اسماعیل اور یَسَع
اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا
فرمائی۔ (پ 7 ،الانعام:86،85)
(4 تا 6 ) آپ علیہ السّلام نے فرزند کی دعا مانگی تو رب کریم نے اسے
قبول فرمایا، آپ علیہ السّلام کے لیے آپ کی زوجہ کا بانجھ پن ختم کر کے اسے اولاد
پیدا کرنے کے قابل بنا دیا اور انہیں سعادت مند فرزند حضرت یحیٰ علیہ السلام عطا فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ
نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ٘-وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور زکریا کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا ، اے میرے رب!
مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ تو ہم نے اس کی
دعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا فرمایا اور اس کے لیے اس کی بیوی کو قابل بنا دیا۔(پ17،
الانبیآء:90،89)
اس سے معلوم ہوا کہ دین کی
خدمت کے لئے بیٹے کی دعا اور فرزند کی تمنا کرنا سنتِ نبی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ جیسی
دعا مانگے ، اسی قسم کے نام سے اللہ پاک کو یاد کرے۔ چونکہ حضرت زکریا علیہ السّلام
کے فرزند نے اُن کے کمال کا وارث ہونا تھا، اس لیے آپ علیہ السّلام نے رب کو وارث
کی صفت سے یاد فرمایا۔