لوگ تفریحاً
جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں پرانے وقتوں میں اگر کوئی افواہ پھیلتی تھی گلی محلے میں
پھیلتی تھی افواہ پھیلنے میں وقت لگتا تھا لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب تو
چھوٹی سی بات بھی چند لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے اور لوگ جھوٹی افواہوں
پر بہت غور کرتے ہیں جھوٹی خبریں یا کوئی بھی مسئلہ شرعی اسے بغیر تحقیق
دوسرےلوگوں کو شیئر کریں گے۔
جھوٹی خبر عقل
مند کے کان سے ٹکراتی ہے تو دم توڑ دیتی ہے۔ نادان کے کان سے ٹکراتی ہے تو مزید
طاقتور ہو جاتی ہے، جھوٹی افواہیں زیادہ تر دشمن بناتا ہے، احمق اور بے عقل شخص
افواہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ آج کل ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کی زد میں آیا ہوا ہے یہ
ایک بڑھتا ہوا مرض بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ شخص جسے کچھ نہیں پتا جسے گھر
میں کوئی نہیں پوچھتا دوستوں میں جس کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ بیٹھ کر خبریں دے
رہا ہوتا ہے۔
یاد رکھیں
مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے۔ اور سننے
والوں کو بھی چاہیے کہ بلاتحقیق کسی بھی افواہ پر یقین نہ کرلیا کریں بلکہ اس کی
تحقیق لازمی کریں کہ خبر دینے والا کس قدر معتمد و معتبر ہے، چنانچہ ارشاد ربانی
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا
بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ
26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی
خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے
پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
احادیث مبارکہ
میں بغیر تحقیق سنی سنائی بات پر عمل کرنے کی ممانعت ہے۔ جھوٹی افواہیں پھیلانے کی
وعید بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے، پیارے آقا ﷺ ارشاد
فرماتے ہیں: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات
بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)بغیر تحقیق کسی پر تنقید بھی نہیں کرنی چاہیے۔