غیر مستند،غیر تصدیق شدہ یا اڑائی ہوئی خبر کو افواہ کہتے ہیں۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کوسنا جس کی صورت پہچانتا ہوں (مگر) یہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے (انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد و شرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔

افواہیں پھیلنے کا سلسلہ اب سے نہیں بلکہ بہت پہلے کا ہے، چنانچہ

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا کہ ایک دفعہ مدینہ میں دہشت پھیل گئی تو نبی کریم ﷺ نے ابو طلحہ سے گھوڑا مانگا جسے مندوب کہا جاتا تھا آپ اس پر سوار ہوئے پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا: ہم نے وہاں کچھ بھی نہ دیکھا اور ہم نے اس گھوڑے کو دریا پایا۔ (بخاری، 2/272، حدیث: 2867)

افواہ یہ پھیل گئی کہ دشمن کا لشکر یا ڈاکو حملہ آور ہوگئے اس پر شور مچ گیا اور اہلِ مدینہ خوفزدہ ہوگئے۔

اسی طرح غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں پر حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبرﷺ کی شہادت کی افواہ بجلی بن کر گری تو سب شکستہ دل اور رنجیدہ ہو گئے۔

حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لو! یہ بہت بڑی خرابی و فساد ہے کہ انسان ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔ (سیر اعلام النبلاء، 8/66)

قرآن کریم بھی بغیر تحقیق کیے خبر کی تصدیق کرنے سے منع فرماتا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براءت ظاہر ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)

اگرچہ یہ سلسلہ بہت پہلے کا ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر کوئی سنی سنائی بات کو بلاتحقیق جلدی سے آگے بڑھا دیتا ہے اور افواہ سازی (Rumor making)میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں حالانکہ فرمان مصطفٰےﷺہے: انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو کوئی واقعہ، خبر یا حدیث سنے، اسے بغیر سوچے سمجھے، بغیر یہ جانے کہ یہ صحیح بھی ہے یا غلط، جس نے بیان کی ہے وہ بھی سچا ہے یا نہیں، اس بات کو آگے کر دے جیسا کہ آج خبروں اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے کہ جھوٹی احادیث و خبریں بغیر سوچے سمجھے آگے بھیجی جاتی ہیں اور لوگوں کے جان و مال اور عزت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے مطلقا آگے بیان کر دینا ہی قابل گرفت نہیں بلکہ جس کا تعلق کسی کی جان و مال یا عزت کے ساتھ ہو اور بتانے والا کوئی معتبر شخص نہ ہو اور اسے آگے پھیلا دینا قابل گرفت ہے۔ خصوصا دینی شخصیات پر بعض لوگ اپنے بغض کی وجہ سے جھوٹی خبریں مشہور کر دیتے ہیں حدیث پاک سے ان لوگوں کو بالخصوص درس حاصل کرنا چاہئے جوموبائل فون پر sms کے ذریعے موصول ہونے والی طرح طرح کی من گھڑت روایات دوسروں کو فارورڈ کرتے (یعنی آگے بڑھاتے) رہتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

لہٰذا بغیر تحقیق و تصدیق ہر سنی سنائی بات پر یقین کر کے آگے نہیں پھیلانی چائیے،اگر بات آگے شیئر کرنا ضروری ہو تب بھی پہلے کسی مستند ذرائع سے تحقیق کر لی جائے پھر حکمت عملی کے تحت آگے شیئر کیا جائے۔

اللہ کریم ہمیں حق پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین