افواہ کے معنی: افواہ عربی زبان کا لفظ ہے جو فوهٌ سے بنا ہے اردو زبان میں بھی مستعمل ہے، جس کے معنی ہیں بے اصل بات مشہور کرنا، جھوٹی خبر مشہور کرنا، اڑتی ہوئی خبر، غیر یقینی و نامعتبر لوگوں کی خبریں۔

دین اسلام میں افواہ: دین اسلام نے افواہ کو برائی گناہ اور ایک معاشتی برائی تصور کیا ہے اور اس برائی کو سختی کے ساتھ ختم کرنے کی تعلیم دی ہے اور ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت کے انجام بد سے باخبر بھی کیا ہے، عوام الناس میں سے بعض کا یہی مشغلہ ہوتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک کوئی نہ کوئی افواہ پھیلاتے رہتے ہیں اور انسانی سماج بالخصوص مسلم امت کو آزمائشوں، اضطراب و کرب سے دوچار کرتے ہیں۔ اس دور میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جدید میڈیا و ذرائع ابلاغ و خبر رساں ادارے بھی اس کے محرک و علمبردار ہیں جس کے سبب معاشرتی زندگیاں درہم برہم ہیں، بنا کسی تحقیق و تصدیق کے کوئی نہ کوئی خبر مشہور کردی جاتی ہے کہیں بھی فسادات کی خبریں مشہور کردی جاتی ہیں، کسی کا الزام کسی کے سرڈال دیا جاتا ہے، کسی کی بیماری یا انتقال کی خبریں عام کردی جاتی ہیں ایسی خبروں سے انسانیت مجروح ہوجاتی ہے اور معاشرے میں کشمکش شروع ہوجاتی ہے، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، فرقہ وارانہ منافرت پھیل جاتی ہے، فساد برپا ہو جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا:

افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا

فاسق کی خبر کی تحقیق: دین اسلام نے اس معاملے میں بات کی تعلیم دی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

اس آیت میں ایک اسلامی قانون بیان کیا گیا ہے کہ دین اسلام ان کاموں سے روکتا ہے جو معاشرتی امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور وہ کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے، جیسے مذکورہ بالا آیت میں بیان کئے گئے اصول کو اگر ہم آج کل کے دور میں پیش نظر رکھیں تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتاہے کیونکہ ہمارے ہاں لڑائی جھگڑے اورفسادات ہوتے ہی اسی وجہ سے ہیں کہ جب کسی کو کوئی اطلاع دی جاتی ہے تووہ اس کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ فوراً اس پر رد عمل کرتا ہے۔

ہر بات آگے پھیلانا: یوں ہی حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

نگہبان فرشتے: آج کل کے سوشل میڈیا کے جدید ماحول میں مشہور ہونے کے لیے انسان بغیر تحقیق کے سچی اور جھوٹی باتیں آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں کوئی بھی بات آگے پہنچانے میں بندے کو بہت غور تفکر کرنا چاہئے کیونکہ کراما کاتبین ہمارے ہر قول فعل کو لکھ رہے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸) (پ 26، ق:18) ترجمہ: وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھاہوتا ہے۔

اکثر وہ باتیں بے معنی فضول یا جھوٹی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں جھوٹوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) (پ 3، اٰل عمران: 61) ترجمہ کنز العرفان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔

جھوٹی افواہیں پھلانے والوں کو اس آیت مبارکہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، لہٰذا ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ افواہوں کے پھیلاؤ میں حصہ نہ لے بلکہ ان کی روک تھام میں کردار ادا کرے۔ حکومت، میڈیا اور سماجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو درست اور مصدقہ معلومات فراہم کریں تاکہ افواہ ساز عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔

افواہیں صرف الفاظ نہیں ہوتیں، یہ وہ چنگاریاں ہیں جو پورے معاشرے کو جلا سکتی ہیں۔ ان کے سد باب کے لیے ہر سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پرامن، باشعور اور مہذب معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صرف درست و حق بات کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبیین ﷺ