افواہ کا مطلب:افواہ ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر غیر تصدیق شدہ اور غیر مستند ذرائع سے پھیلی ہو، جس میں عام طور پر صداقت کے حوالے سے شک و شبہ موجود ہو۔ یہ ایک ایسی خبر یا کہانی ہے جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہے اور اس کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی فوری یا مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

افواہ درحقیقت واقعات کی لمبی توجیہات ہیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتے ہیں اور یہ کسی شے، واقعے یا عوامی دلچسپی کے موضوع سے متعلق ہو سکتی ہیں۔

غیر متوقع اور غیر منطقی: افواہیں اکثر غیر متوقع اور غیر منطقی ہو سکتی ہیں، جو عام طور پر لوگوں کی سوچ اور عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

افواہیں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتیں ہیں، جو عام طور پر ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی افواہی نوعیت سے ایک ساتھ ملتی جلتی ہوتی ہیں۔

افواہ کی مثالیں:

غیر تصدیق شدہ خبریں: غیر مستند ذرائع سے پھیلی خبریں جو عام طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص تک گشت کرتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

شایعات: شایعات جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر شایعات: فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شایعات جو عام طور پر غیر مستند ذرائع سے پھیلتی ہیں اور ان کی حقیقت کو تصدیق کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔

افواہوں کی افادیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی سچائی پر سوال کرنے اور ان پر اعتماد نہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ افواہیں عام طور پر غلط معلومات فراہم کرتی ہیں اور ان پر اعتماد کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے، جو کہ ایک اہم نقطہ نظر ہے جو افواہوں کے بارے میں سچائی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

سنی سنائی باتیں پھیلانے کا نقصان: ٹیچر کلاس میں داخل ہوئے اور ایک پرچی پر یہ خبر لکھی کہ راولپنڈی میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا دونوں طرف سے لاٹھیاں، گولیاں چلیں جس میں تین افراد کی موت جبکہ چار افراد زخمی ہوئے اور اپنے قریب بیٹھے اسٹوڈنٹ کو دکھاتے ہوئے کہا: اب آپ میں سے ہر ایک اس بات کو دوسرے کے کان میں بتائے، جب سب سے آخر میں بیٹھے اسٹوڈنٹ تک یہ سلسلہ مکمل ہوا تو اب ٹیچر نے اس آخری اسٹوڈنٹ کو کان میں بتائی گئی خبر بلند آواز سے بیان کرنے کو کہا تو اس نے کچھ یوں اطلاع دی:پنڈی میں جھگڑا ہوا جس میں آٹھ آدمی قتل جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔

کہنے کو تو یہ ایک واقعہ ہے لیکن اس میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔شاید کبھی ہمارے ساتھ بھی اس طرح ہوا ہو کہ کوئی سنسنی خیز،دل ہلا دینے والی خبر ہم تک پہنچی ہو جو بعد میں جھوٹی اور فیک ثابت ہوئی ہو یا حقیقت میں معاملہ کچھ اور تھا جو پھیلتے پھیلتے مذکورہ پریکٹیکل اسٹوری کی طرح رد و بدل اور کمی زیادتی کا شکار ہو گیا ہو مگر یاد رکھئے !خبر پھیلنے سے لے کر فیک ثابت ہونے تک کئی نقصان دہ اور بھیانک نتائج متوقع ہیں اور بعض مرتبہ یہی جھوٹی خبر یں کسی سچی اذیت ناک خبر کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ معاشرے میں اڑتی فیک باتیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا انتشار،لڑائی جھگڑوں اورفسادات کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کو بھی متاثر کرتی ہیں اور اس کے ساتھ خواہ مخواہ کے فضول و بےجا تبصرے ماحول کو مزید دہشت ناک بنا دیتے ہیں۔ معاشی (لین دین کے متعلق) سرگرمیاں اور نظام زندگی بھی اس کے سبب متأثر ہوتےہیں۔ اسی طر ح مذاق میں پھیلائی گئی جھوٹی خبر بسااوقات سخت نقصان کا باعث بنتی ہے جیسا کہ فرسٹ اپریل کو اپریل فول کے نام پر ہرسال مختلف واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

بہرحال ان سب نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات کے ذریعے تک بھروسے کے لائق ہیں۔

ہمارا دین اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

سبحٰن اللہ! دین اسلام کی کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقت حال جانے بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

یوں ہی حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اس کے متعلق خبردار کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کردے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اسی طرح بعض اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔(مسلم، ص 18، حدیث: 17)مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔

افواہیں شرعی طور پر منع کی گئی ہیں اور انہیں جھوٹ اور غیبت کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے نقصان ہوتا ہے اور اس سے معاشرے میں بداخلاقی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔ اسلام سچائی کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور افواہیں پھیلانے سے منع کرتا ہے۔

افواہوں کے دینی و دنیوی نقصانات:

افواہیں جھوٹ کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور انہیں سچ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھوٹ بولنا اسلام میں منع ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔

افواہیں غیبت کی ایک قسم ہیں: افواہیں عام طور پر کسی کے بارے میں غلط اور بدنامی کی باتیں ہوتی ہیں جو غیبت کی ایک شکل ہے۔ غیبت کرنا بھی اسلام میں منع ہے، اور اس سے نفسانی خواہشات اور بدعقلی پیدا ہوتی ہے۔

افواہیں نقصان کا باعث بنتی ہیں: افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے لوگوں کی ساکھ اور عزت کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میں بدعقلی اور ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔

افواہوں سے بچنے کا حکم: اسلام افواہوں سے بچنے اور سچائی کو ترجیح دینے پر زور دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں افواہوں کو پھیلانے اور سننے سے منع کیا گیا ہے اور سچائی اور ایمانداری پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

افواہوں کی سزا: افواہیں پھیلانے اور سننے کی سزا دنیاوی اور اخروی دونوں طرح ہے۔ دنیا میں یہ سماجی نقصان اور رسوائی کا باعث بنتی ہیں، جبکہ آخرت میں یہ گناہ شمار ہو گی اور ان کی سزا جہنم ہے۔

افواہوں سے بچنے کے لیے کیا کریں؟

سچائی کو ترجیح دیں: سچائی کو ہمیشہ ترجیح دیں اور جھوٹ سے بچیں۔

غیبت سے گریز کریں: کسی کے بارے میں غلط اور بدنامی کی باتیں کرنے سے گریز کریں۔

افواہوں کو نہ پھیلائیں: افواہوں کو پھیلانے سے بچیں اور انہیں نہ سنیں۔

معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کریں: معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کریں اور جھوٹ اور افواہوں سے بچیں۔

صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں: اگر کوئی افواہ آپ کی طرف متوجہ ہو تو صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور سچائی کا اظہار کریں۔

افواہوں سے بچنا ایک ضروری دینی فرض ہے، اور اس پر عمل کرنے سے ہم معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کی ترویج کرنے اور بدعقلی اور ناانصافی سے بچنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ افواہیں پھیلانے سے منع کیا جاتا ہے اور اس کی ممانعت اسلامی عقائد میں شامل ہے۔ یہ بات قرآن و سنت میں بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ افواہیں پھیلانا ایک سنگین جرم ہے اور اس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

افواہیں پھیلانے سے ممانعت کی وجوہات:

جھوٹ اور فریب: افواہیں عام طور پر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ایک مسلمان کے لیے حرام ہے۔

بدنامی اور تنازع: افواہیں لوگوں کے درمیان بدنامی اور تنازع پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلامی معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔

حقائق کو مسخ کرنا: افواہیں حقائق کو مسخ کرتی ہیں اور لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

نفسانی خواہشات کی تکمیل: افواہیں پھیلانے والے اکثر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان بغض اور عداوت: افواہیں مسلمانوں کے درمیان بغض اور عداوت پیدا کرتی ہیں جو کہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔

افواہیں پھیلانے سے ممانعت کی مثالیں:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹی بات کہتا ہے وہ جہنم میں جائے گا۔