افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت شہزاد احمد، جامعۃ المدینہ حبیبیہ دھوراجی کراچی
آج کے معاشرے
میں نظر دوڑائی جائے تو کوئی خطہ ایسا نظر آنا ناممکن ہے جہاں جھوٹی افواہوں کا
رواج نہ ہو۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی جھوٹی افواہوں کا ہونا عام ہے جسے لوگ بغیر
تحقیق کے آگے بڑھادیتے ہیں۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ
الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی
الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ-وَ لَوْ لَا
فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۳) (پ 5،
النساء: 83) ترجمہ کنز العرفان: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے
تو اسے پھیلانے لگتے ہیں حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور اپنے بااختیار لوگوں کی
خدمت میں پیش کرتے تو ضرور ان میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس (خبر
کی حقیقت) کوجان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور
تم میں سے چند ایک کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت کو سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ
ملکی و بین الاقوامی معاملات اور صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا
حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے
پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی
سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے
ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر
یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت
میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ،
کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔ کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا
جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن
کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے
نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ
بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں
لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔
ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہلِ دانش اور
سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور
رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط الجنان، 2/260)
یاد رکھیں!
مسلمانوں میں افواہیں چھوڑنا، طرح طرح کی خرابیاں ڈالنا گناہ کا کام ہے، ایسا نہیں
کرنا چاہیے لوگوں کو چاہیے جھوٹی خبریں، افواہوں پر کان نہ دھریں اس پر توجہ نہ دے
اپنے کام سے کام رکھے اور بغیر تحقیق کے ایسی باتوں کو آگے ہرگز نہ بڑھائے ورنہ
کوئی بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے اللہ پاک ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
آمین
حضرت حفص بن
عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کے جھوٹا
ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8،
حدیث: 5)
بازاری
افواہیں: جہاں
بہت سی جگہوں اور سوشل میڈیا پر افواہوں کا سلسلہ جاری ہے وہی بازاری افواہیں بھی
عام ہے بغیر تصدیق کے ہر ایک ایسی باتوں کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے جسکی کچھ
حقیقت نہیں۔
جیساکہ سیدی
اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بازاری افواہ قابل اعتبار
اور احکام شرع کی مناط ومدار نہیں ہوسکتی بہت خبریں بے سروپا ایسی مشتہر ہوجاتی
ہیں جن کی کچھ اصل نہیں یا ہے تو بہزار تفاوت اکثر دیکھا ہے ایک خبر نے شہر میں
شہرت پائی اور قائلوں سے تحقیق کیا تو یہی جواب ملاکر سنا ہے نہ کوئی اپنا دیکھا
بیان کرے نہ اس کی سند کا پتا چلے کہ اصل قائل کون تھاجس سے سن کر شدہ شدہ اس
اشتہار کی نوبت آئی یا ثابت ہوا تو یہ کہ فلاں کا فرمایا فاسق منتہائے اسناد تھا
پھر معلوم ومشاہد کہ جس قدر سلسلہ بڑھتا جاتا ہے خبر میں نئے نئے شگوفے نکلتے آتے
ہیں زید سے ایک واقعہ سنیے کہ مجھ سے عمرو نے کہا تھا عمرو سے پوچھئے تو وہ کچھ
اور بیان کرے گا۔بکر سے دریافت ہوا تو اور تفاوت نکلا۔ علی ھذا القیاس (فتاویٰ
رضویہ، 4/479)
ایسی بات جس
میں کسی مسلمان کی شکایت ہو یا اسکی سزا سے متعلق بات ہو تو پہلے اسکی تحقیق کرلی
جائے اسکے بعد ہی فیصلہ کیا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جھوٹی بات ہو اور اگر وہ
جھوٹی بات ہوگی تو اس سے ایک مسلمان کو اذیت ہوگی اور مسلمان کو اذیت دینا ناجائز
و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
مشہور تابعی
مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ مسلمان کو تکلیف دینے سے متعلق فرماتے ہیں: جہنمیوں
پرخارش مسلط کردی جائے گی تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتّی کہ ان میں سے ایک کی
(کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکارکر کہا جائے گا:اے
فلاں!کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ
فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی
قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت کے تحت
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس
کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ
تحقیق کرلو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ جو فسق سے نہیں بچا وہ جھوٹ سے بھی نہ
بچے گا تاکہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر ان کی براء ت ظاہر
ہونے کی صورت میں تمہیں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔ (صراط الجنان، 9/409)
دین اسلام کی
کیا خوبصورت تعلیمات ہیں کہ اسلام ان کاموں سے رکنے کا حکم دیتا ہے کہ جو معاشرتی
امن کے خاتمے کا باعث ہیں اور ان کاموں کا حکم دیتا ہے جن سے معاشرہ امن و اتفاق
کا گہوارہ بن سکے۔لہٰذا گھر بار کوچہ و بازار میں بات کی تصدیق اور حقیقت حال جانے
بغیر انسان ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے کہ جس سے بعد میں اسے پریشانی کا سامنا کرنا
پڑے۔
شیطان
کا جھوٹی خبریں پھیلانا: شیطان بھی بعض اوقات انسانی شکل میں آکر
جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان
آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر
دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا
جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم،
ص 18، حدیث: 17)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّے ”انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے“
کے تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت
کی خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔
جھوٹی افواہوں
کے نقصانات اور ذہنی اور ماحولیاتی الجھنوں سے بچنے کے لئے عقل کا تقاضاہے کہ ایسی
سنسنی اور دہشت پھیلانے والی خبروں پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے اور نہ
ہی انہیں آگے بڑھایا جائے اور اگر آگے کسی کو بتانا ضروری ہی ہو تو پہلے معلومات
کے ذرائع کو دیکھ لیا جائے کہ وہ کس حد تک بھروسے کے لائق ہیں۔