افواہوں پر
کان نہ دھریں از بنت محمد زاہد، جامعۃ المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
اللہ پاک قرآن
میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ
فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا
عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۶) (پ 26، الحجرات: 6) ترجمہ کنز الایمان:
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی
قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اس آیت مبارکہ
سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے جس میں کسی کی شکایت
ہو یا کسی کے بارے میں بات ہو تو صرف اس کی بات پر اعتماد نہ کرو بلکہ تحقیق کرلو
کہ وہ صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اگر بغیر تحقیق اس کی بات پر یقین کرلیں گے تو اس سے
بدگمانیاں اور فتنا و فساد پھیلنے کا خدشہ ہے۔
ایک اور جگہ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ
الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-( سورہ النساء:04 آیت 83) ترجمہ: اور
جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں۔
اس آیت کو
سامنے رکھ کر ہم اپنے گھروں کے معاملات بلکہ ملکی و بین الاقوامی معاملات اور
صحافتی معاملات کو جانچ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ ایک بات کو کوئی شخص
اچھالتا ہے اور پھر وہ موجودہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں گردش کرنے لگتی ہے اور
کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ اس بات کا کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی
ہے۔ مسلمانوں کو اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے ایسی سازشیں، افواہیں اور خبریں دن
رات پھیلائی جارہی ہیں حتّٰی کہ بعض جگہوں پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلمانوں
کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک وہ کسی ایک
کافر کو قتل نہیں کرلے گا۔ ا لامان والحفیظ، کیسا جھوٹ اور کیسی دیدہ دلیری ہے۔
کفار کے ممالک میں مسلمانوں کا جو تشخص پھیلایا جارہا ہے وہ بھی اسی طرح کی جھوٹی
افواہوں کے ذریعے ہے اور پھر ایسی ہی باتیں سن کر مغرب سے مرعوب کچھ پڑھے لکھے
سمجھے جانے والے ہمارے لوگ ان باتوں کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اسلام کو بدنام
کرتے ہیں۔ یہی معاملہ گھروں میں ہے کہ کسی نے کچھ بات کہی، وہ پھیلتے پھیلتے دس
مرتبہ اضافوں کے ساتھ ایسی ہوگئی کہ خاندانوں میں لڑائیاں چھڑگئیں اور تباہیاں مچ
گئیں۔ ایسی سینکڑوں باتوں کا ہم سب کو تجربہ ہوگا۔ ان سب کیلئے قرآن نے یہ اصول
دیا ہے کہ جب ایسی کوئی بات پہنچے تو اہل دانش اور سمجھدار لوگوں تک پہنچا دی جائے
وہ غور و فکر اور تحقیق سے اس کی حقیقت حال معلوم کرلیں گے اور یوں بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ نہیں بنے گا۔ (صراط
الجنان، 2/260)
اس کے متعلق
ایک واقع ہے کہ ایک استاد اپنی کلاس میں آیا اور آگے بیٹھے ہوئے بچے کے کان میں
بولا کہ لاہور میں بس کے ساتھ ایک حادثہ ہوا ہے اور اس میں تین لوگ انتقال کرگئے
اور دو لوگ زخمی ہوئے اور کہا کہ یہ بات دوسرے بچے کو کان میں بتاؤ اور وہ دوسرے
کو بتائے گا اس طرح کر کے جب یہ بات سب سے آخری بچے کے پاس پہنچی تو استاد نے اس
سے کہا کہ اب یہ بات بلند آواز سے سب کو بتاؤ اس بچے نے کہا: لاہور میں بس کے ساتھ
ایک حادثہ ہوا جس میں دس لوگ انتقال کر گئے اور 15 لوگ زخمی ہوئے۔
اس واقعے سے
یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ افواہ اڑتی ہے اور لوگوں تک پہنچتی ہے تو لوگ اس میں اپنی
بات اور جھوٹ ملا دیتے ہیں جس سے بات بہت بڑی ہو جاتی ہے حالانکہ اتنی وہ بڑی بات
ہوتی نہیں ہے۔
حدیث مبارکہ
میں ہے: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی
کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کیے بغیر)
بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)
اس حدیث
مبارکہ میں بغیر تحقیق بات کو آگے بڑھانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ جھوٹا
ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق
کے بات کو آگے پہنچا دیتے ہیں جب کہ ہمارا دین اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے
کہ کوئی بات بغیر تحقیق (اور حوالے) کے خواہ وہ قرآن یا حدیث کا نام لے کر کہی گئی
ہو، اسے ماننے اور اسے آگے پھیلانے سے منع کرتا ہے۔ بلکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ
اگر ہمیں کو حدیث یا کوئی روایت ملے تو ہم اسے علما کے سامنے پیش کریں اور اس کا
حکم معلوم کریں۔
اسی طرح بعض
اوقات شیطان بھی انسانی شکل میں آکر جھوٹی خبریں اڑاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شیطان آدمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا
ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو ان میں سے کوئی
کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے سنا جس کی صورت پہچانتا ہوں مگریہ نہیں جانتا کہ اس
کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔ (مسلم، ص 18، حدیث: 17)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کے اس حصّےانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے کے
تحت فرماتے ہیں: کسی واقعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بہتان یا فساد وشرارت کی
خبرجس کی اصل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔ (مراٰۃ المناجیح،6/477)
بغیر تحقیق
بات کو آگے پہنچانے کے نقصانات:
• جو بغیر
تحقیق بات کو آگے بڑھائے وہ اپنے آپ کو جھوٹ میں مبتلا کرتا ہے۔
• بغیر تحقیق
بات کے نتیجے میں کوئی مسئلہ یا اختلاف، لڑائی وغیرہ ہوتی ہے تو اس کا وبال بتانے
والے کے سر پر ہوتا ہے۔
• بلا تحقیق
بات کرنا واٹس ایپ کے دور میں زیادہ تیز ی سے پروان چڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجے میں
لوگوں میں دشمنیاں،عداوتیں، لڑائیاں، بغض و حسد اور ناراضگی وغیرہ بڑھ جاتی ہے۔
• اگر وہ بلا
تحقیق بات ہمارے ملک یا شہر وغیرہ کی ہو تو اس کے نتیجے میں بات پھیلانے والے کو
قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
• اس طرح کوئی
شخص آکر کہے کہ فلاں نے آپ کے بارے میں کچھ کہا ہے تو وہ اس کی تحقیق کئے بغیر
اپنے دل میں دوسرے کے بارے میں بغض وعداوت پیدا کر دیتا ہے۔
• بلا تحقیق
بات کو لوگ آگے پھیلانے میں اپنا کردار خوب ادا کرتے ہیں اس وقت وہ بھول جاتے ہیں
کہ وہ کتنے بڑے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں۔
اس لیے ہم کو
اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بلا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔ جب
کوئی بات ہمارے پاس آئے تو اس کی تحقیق کی جائے پھر آگے بڑھائی جائے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں بھی سوچ سمجھ کر درست اور حقیقت حال کے مطابق محتاط انداز میں بات
کرنے والا بنائے، ہمیں خیر پھیلانے کا ذریعہ بنائے اور ہر طرح کے فتنہ وفساد کی
ترویج واشاعت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبین ﷺ