افواہ سے مراد ایسی بات ہے جو بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پھیلائی جائے اور اس کی بنیاد شک اور جھوٹ پر ہو، شریعت ہمیں تحقیق و تصدیق کرنے کا حکم دیتی ہے اور افواہوں پر کان دھرنے سے منع کر تی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی کی سنی سنائی بات پر یقین کرکے کسی کی حق تلفی کرنے یا کسی کو تکلیف پہنچانے کے جرم میں مبتلا ہو جائیں۔

قرآن کریم میں جگہ جگہ افواہوں پر کان دھرنے سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖؕ-وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْؕ- (پ 5، النساء:83) ترجمہ: اور جب امن یا خوف کی کوئی بات ان کے پاس آتی ہے تو اسے پھیلانے لگتے ہیں، حالانکہ اگر اس بات کو رسول اور بااحتیار لوگوں کی خدمت میں پیش کر تے تو ضرور ان میں سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت رکھنے والے اس کو جان لیتے۔

اس آیت مبارکہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے ہمیں اس کی تحقیق کروانی چاہیے جبکہ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ایک شخص کوئی بات اچھالتا ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے وہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا تو کوئی سر پیر ہی نہیں اور وہ سراسر جھوٹی ہے۔

آج کل مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں لہذا ان مسائل سے بچنے کا واحد حل جو ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ جب اس طرح کی خبر پہنچے تو اس کی تحقیق عقل مند اور سمجھدار لوگوں سے کروانی چاہیے اسی طرح حدیث پاک میں ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے۔ (مسلم، ص 8، حدیث: 5)

اس حدیث پاک سے معلوم ہو رہا ہے کہ سنی سنائی بات بیان کرنا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے دین اسلام میں جھوٹ بولنا گناہ ہے اسی مناسبت سے سنی سنائی بات بیان کرنا بھی گناہ ہے لہذا ہمیں اس گناہ سے بچنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم کوئی بھی کام تصدیق کئے بغیر نہ کریں، کیونکہ تصدیق کرنا سنت سے ثابت ہے آقا ﷺ کوئی بھی کام تصدیق کئے بغیر نہیں کر تے تھے، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر کفار نے خاموشی کے ساتھ جنگ کی تیاری کی تاکہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس جو کہ خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں ہی رہتے تھے انہوں نے حضور ﷺ کو خط لکھ کر کفار کے حملے کی خبر دی تو آپ ﷺ نے پہلے تحقیقات کروائیں تحقیقات کروانے کے بعد معلوم ہوا کہ کفار کا لشکر مدینہ کے بہت قریب آ چکا ہے۔

اس واقعے میں ہمارے لیے بہت پیارا درس چھپا ہوا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنت کو اپناتے ہوئے ہر کام تصدیق کے بعد کرنا چاہیے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں افواہیں پھیلانے جیسے جرم سے محفوظ رکھے اور نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین