حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا۔

"یعنی بہترین کام وہ ہیں جو میانہ روی کےساتھ کئے جائیں"۔

میانہ روی اور اعتدال کا مطلب:تمام افعال میں ایسی درميانی راہ اختیار کرنا کہ جس میں نہ تو افراط(زيادتی، حد سے بڑھنا) ہو اور نہ ہی تفریط(کمی کرنا) ہو۔

میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت:

میانہ روی کی اہمیت کا اندازہ اس حدیثِ مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو مکّہ مکرمہ میں ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، واپسی پر بھی اُسے اسی حالت میں پایا تو ارشاد فرمایا:" اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، اے لوگو! تم پر میانہ روی لازم ہے، بیشک اللہ عزوجل اجر عطا فرمانے سے نہیں اُكتاتا، بلکہ تم(عبادت سے)اُكتا جاتے ہو۔"

حدیثِ مذکورہ میں عبادت میں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور تنگی میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے ، یہ حدیث نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ تمام نیک اعمال کو بھی شامل ہے۔

میانہ روی اختیار کرنا بھی” عبادالرحمن “کی صفات میں شامل ہے :

چنانچہ اللہ تعالی عبادالرحمن کی صفات بیان کرتے ہوئے سورة الفرقان کی آیت نمبر 67 میں ارشاد فرماتا ہے، وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

میانہ روی منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے:

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ میانہ روی اختیار کرو یعنی تم نفلی عبادات میں اتنی سختی نہ کرو کہ اُكتاہٹ کا شکار ہو کر نیک اعمال سے دور ہو جاؤ اور حد سے بڑھنے والوں میں شامل ہو جاؤ ، خبردار! حد سے نہ بڑھو، درميانی راہ اختیار کرو، تم منزلِ مقصود تک پہنچ جاؤ گے، اپنے تمام اوقات، عمل میں نہ گزارو بلکہ نِشاط کہ اوقات کو غنیمت جانو اور وہ دن کا پہلا اور آخری حصّہ ہے اور رات کا کُچھ حصّہ ہے اور اپنی جانوں پر رحم کرو تا کہ ہمیشگی سے عبادت کر سکو ۔

میانہ روی اور اعتدال کا بہت زیادہ فائدہ ہے، کیوں کہ بسا اوقات انسان کسی کام میں شدّت اختیار کرتا ہے، تو وہ جلد ہی اُس کام سے اُکتا جاتا ہے اور اگر تفریط(كمی) سے کام لیتا ہے، تو اس کام کو اچھی طرح سے سرانجام نہیں دے سکتا، برخلاف اس کے کہ اگر وہ اسی کام کو میانہ روی و اعتدال کے ساتھ کرے، تو وہ ہمیشہ اس کام کو کر سکتا ہے اور بہترین عمل بھی وہی ہے، جس میں ہمیشگی اختیار کی جائے اور میانہ روی استقامت کی کنجی ہے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ دینِ اسلام سب مذاہب سے آسان ہے ، اس میں افراط اور تفریط بالکل نہیں ہے ، اسلام ہمیں قول و فعل و ہر عمل میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔

اللہ عزوجل ہمیں ہر کام میانہ روی سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میانہ روی اور اعتدال(درمیانی راہ)اختیار کرنے میں فائدے ہی فائدے ہیں بھلے  وہ دُنیا کا معاملہ ہو یا دین کا، میانہ روی سے کی جانے والی عبادات میں دِل جمعی اور اِستقامت نصیب ہوتی ہے، اپنے اور متعلقین کے حقوق کی ادائیگی میں سہولت رہتی ہے اور بندہ آسانی سے کامیابی کی منزلوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ، کیونکہ عبادات میں میانہ روی اللہ عزوجل کے نیک بندوں کا طریقہ اور ان کی سُنّت ہے، اس کی پیروی میں عا فیت اور آسانی ہے، اسلام میں میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ اِرشادِ باری تعالی ہے: طٰهٰۚ(۱)مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)

ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )

علامہ علاءُالدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: " جب مشرکین نے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت میں بہت زیادہ کوشش کرتے دیکھا تو کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر قرآن( پاک) اس لیے اُتارا گیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو ۔"اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، جلد 2 ، ص421۔422)

حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وَعَن ا بْنِ مَسْعُوْدِِ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ھَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَھَا ثَلَاثَا۔

ترجمہ:"حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا: "غُلُوّ و تکلُّف کرنے والے ہلاک ہو گئے"۔

امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں پڑتے ہیں اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدّت کرتے ہیں۔

(فیضان ریاض الصالحین، جلد 2، ص438)

عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللہِ جَابِرْ بِنْ سَمْرَۃَ السُّوَانیِ رضی اللہ عنہما قَالَ: کُنْتُ اُصَلِّی مَعَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلَوٰاتِ فَکَانَتْ صَلَاتُہٗ قَصْدََا وَ خُطْبَتُہٗ قَصْدََا۔

حضرت سیدنا عبد اللہ بن جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بھی درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔"(فیضان ریاض الصالحین، ج2، ص450۔451)

اس سے معلوم ہوا کہ میانہ روی کامیابی کیلئے ضروری ہے، دین و دنیا دونوں معاملات میں میانہ روی اختیار کی جائے، عبادت میں اس قدر شدّت نہ کی جائے کہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق ) تلف (ضائع ) ہو جائیں اور نہ بہت کمی کی جائے، اعتدال و استقامت کے ساتھ چلا جائے، جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے تو اس میں بھی میانہ روی ضروری ہے، زیادہ دنیا میں مگن ہو جانا ، دولت زیادہ کرنے کی ہوس (خواہش ) ہونا ، دین سے دور کرتا ہے اور خدا نخواستہ ایمان ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور دنیا کو بالکل چھوڑنا بھی نہ چاہیے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ضروری ہیں، دنیا کا استعمال جتنا بھی کرے اُس سے اپنی آخرت سنْوارے، مُباح کاموں پر اچھی نیت کرلے تا کہ اچھی نیت پر ثواب ملے ۔

اللہ کریم ہمیں دین و دُنیا کے معاملے میں میانہ روی اور اعتدال اختیار کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 


اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کی ایسی عظیم صفت ہے،  جو اس کے ہر معاملے اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے، اعتدال و میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو، نہ تفریط ہو، یعنی نہ شدت ہواور نہ کوتا ہی ہو، جب دینِ اسلام کی یہ نمایاں خصوصیت ہے، جو اس کو تمام اَدیان سے ممتاز بناتی ہے، لازمی طور پر اُمّتِ مسلمہ کی بھی یہی خصوصیات ہوں گی، وہ عدل و اعتدال سے مُتصف اور افراط و تفریط سے مُبراء رہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(سورۃ البقرہ ، 143)

اللہ پاک نے اس امت کو اُمتِ وسط کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ اپنے دین کے ہر معاملے میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بے شمار پہلوؤں میں ایک پہلو اعتدال و میانہ روی بھی ہے، اعتدال و میانہ روی دینِ اسلام کا طُرّہ امتیاز اور محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، گفتگو کرنا، تجارت ومعاملات کرنا الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا، اعتدال و میانہ روی کی نمایاں عکاسی کرتی ہے۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال و میانہ روی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:" کھاؤ، پیو ، پہنو اور صدقہ کرو، جب تک اس میں اِسراف وتکبّر کی آمیزش نہ ہو۔"

(سنن ابن ماجہ)

خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام کی تمام تر تعلیمات اعتدال و میانہ روی پر مبنی ہیں، چاہے ان کا تعلق قول و عمل سے ہو یا اخلاق و معاملات یا دوسرے اُمور سے ہو۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنے ہر عمل میں میانہ روی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


افراط و تفریط،  انتہا پسندی، شدت اور بے اعتدالی اُن خصوصیات میں شامل ہیں، جن کو کبھی مفید اور پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا ہے، اس کے برعکس میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، افراط و تفریط چاہے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو اور کسی بھی کام میں اس کا مظاہرہ کیا جائے، نتائج و اثرات کے لحاظ سے نقصان رساں اور مایوس کُن ہوتی ہے، بُرے اعمال تو ایک طرف رہے، اچھے اعمال اور نیک افعال میں انتہا پسندی اچھی اور مستحسن نہیں ہے۔

اسلام دین فطرت ہے اور اسی لئے اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل نظام ہے، افراط وتفریط کی اس نے کسی شعبہ زندگی میں بھی اجازت نہیں دی ہے۔

قرآن مجید میں مسلمانوں کو اُمتِ وسط کے خطاب سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

یعنی: ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔

(سورۃ البقرہ، ، 143)

مسلمانوں کو امتِ وسط کہہ کر واضح کردیا گیا ہے کہ درمیان کا راستہ اور اعتدال کا طریقہ ان کے نمایاں اوصاف میں شامل ہونا ہے، چنانچہ غلو سے پر ہیز، انتہا پسندی سے گریز اور میانہ روی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے، مسلمانوں کو صاف بتادیا گیا ہے کہ

ترجمہ کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا"(بنی اسرائیل، 29)

بخل کی عادت انسان کو اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے لُطف اندوز نہیں ہونے دیتی اور فضول خرچی سے بالآخر انسان تنگ دست ہو کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اسی لئے اعتدال اور میانہ روی کی تاکید فرمائی گئی ہے، سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔

(الفرقان، 67)

میانہ روی مؤمن کی صفت ہے، مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روکتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔" ( شہید حکیم محمد سعید)



میانہ روی اور اعتدال کو ہمیشہ قابلِ تعریف قرار دیا گیا ہے، اس کے برعکس انتہا پسند ی ، شدت پسندی اور بے اعتدالی کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، شدت و انتہا پسندی دین و دنیا کے کسی بھی شعبے میں ہو، اس کے نتائج و اثرات نقصان رساں اور مایوس کُن نکلتے ہیں، اسی لئے میانہ روی اور اعتدال کی اِسلام میں بہت اہمیت ہے، اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کا دیا ہوا نظامِ حیات نہایت مکمل، متوازن اور معتدل نظام ہے۔

ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم جب منصبِ نبوت پر فائز ہوئےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ حق کا حکم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں لوگوں کو دینِ حق کی جانب بلانا شروع کیا، لیکن اس وقت عرب کے لوگ اس قدر بے راہ اور کفر و شرک کی اتنی تاریکی میں تھے کہ حق کی روشنی میں ان کے لئے کشش نہ تھی، ان کی بے حسی نے ان کو اعلان حق پر بھی کان دھرنے نہ دیا، اپنی قوم کی نفرت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملال ہوتا اور دل دکھتا، اللہ پاک نے جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینِ اسلام کے لئے اس قدر پریشان دیکھا تو فرمایا: مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)

ترجمہ کنز الایمان: "اے محبوب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو"(سورت طہٰ، آیت 2 )

اس ارشادِ ربّانی پر غور فرمائیے، حق کا معاملہ ہے، اس کی دعوتِ عام کا مرحلہ درپیش ہے، اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی حالت پر غمگین ہیں، لیکن اس میں بھی شدت سے منع کیا جا رہا ہےتو توازن و اعتدال کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ قیامِ حق میں بھی اس کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی، میانہ روی کی تاکید صرف اسی مسئلے تک محدود نہیں، بلکہ اِسلام کی امتیازی خصوصیات میں میانہ روی اور اعتدال شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کو "الکتاب " کے علاوہ "المیزان" اور مسلمانوں کو اُمتِ وَسط کے خطاب سے نوازا گیا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا

ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔

(سورۃ البقرہ ، 143)

اسی طرح خرچ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان: "اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا"

(بنی اسرائیل، 29)

اس آیت کا منشا بھی یہی ہے کہ انسان نہ کنجوسی اختیار کرے اور نہ اِسراف کرے، یہ دونوں طریقے غلط ہیں اور میانہ روی کے خلاف ہیں، بلکہ میانہ روی کو اللہ عزوجل نے مومن کی صفت کہا ہے۔

ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔(الفرقان 67)

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان عبادت میں غلو برتنے لگے اور پیروی حق کے جوش میں اعتدال کو نظر انداز فرمانے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ٹوکا اور میانہ روی کی تلقین کی،فرمایا:" اعتدال یعنی ہر کام کو افراط وتفریط کے بغیر کرنا نبوت کا پچیسواں حصہ ہے"۔

میانہ روی سب کے لئے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیا وی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں میانہ روی مُفید نہیں، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے، اللہ پاک ہمیں دینِ اسلام اور قرآن و حدیث کے مطابق اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


میانہ روی کا معنی و مفہوم:میانہ روی فارسی زبان کا لفظ ہے، عربی میں اس کو "اعتدال" بھی کہتے ہیں۔

مفہوم:میانہ روی کے لفظی معانی "درمیانہ روش یا چال" کے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کی جائے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا ، ترجمہ کنز الایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل۔(سورۃ البقرہ، 143)

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی اقوام زندگی کے مختلف شعبوں میں افراط وتفریط کا شکار ہو گئیں تھیں، اسی طرح وہ اپنے عقائد ، عبادات، معاشرتی اور معاشی زندگی میں افراط وتفریط کی روِش اپنا کر وہ فطرت کی راہ سے دور ہو گئیں، اسلام کے تمام عقائد میں میانہ روی کی روح شامل ہے، تو جس سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی نے تو اس امت مسلمہ کا نام ہی وسط و اعتدال والی امت بتایا ہے۔

معاشرت میں میانہ روی:

معاشرت میں میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ اُٹھنے بیٹھنے اور زندگی گزارنے کے مختلف پہلوؤں میں اعتدال کی راہ اختیار کرلی جائے، نیز گفتگو کرتے ہوئے نہ ہی اتنی بلند آواز سے گفتگو کی جائے اور نہ ہی اتنی دھیمی آواز سے گفتگو کرنی چاہیے بلکہ ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، اسی طرح کھانے پینے وغیرہ میں نہ اتنا کم کھانا چاہیے کہ آدمی کمزور ہوجائے اور نہ ہی اتنا زیادہ، اسی طرح پیدل چلتے وقت بھی میانہ روی سے کام لیا جائے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ ۔ ترجمہ کنز الایمان: " اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر۔" ( لقمان، آیت19)

میانہ روی کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: مَاعَالَ مَنِ ا قْتَصِد:ترجمہ:"جو میانہ روی اختیار کرے گا وہ محتاج نہ ہو گا۔"

معیشت میں میانہ روی:

روز مرہ زندگی میں ذاتی اخراجات ہوں یا گھریلو اخراجات، سب میں خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف سے کام لیا جائے اور نہ ہی بخل سے، بلکہ درمیانی راہ اپنائی جائے، مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا:"اور جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ ، نہ ضرورت سے زیادہ ، نہ کم۔"

میانہ روی کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال:

(*) جب تمہیں اپنے نفس کی اصلاح منظور ہو، تو میانہ روی اختیار کرو۔

(*) اللہ تعالی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے میانہ روی، راست روی اور حسن تدبیر کی نعمت عطا فرماتا ہے۔

(*) میانہ روی کو لازم پکڑو، یہ فراغت کا بہت اچھا معاون (مددگار) ہے۔

(*) تین عادتیں ایسی ہیں، اگر وہ کسی میں پائی جائیں تو وہ کامل ایمان والا کہلائے گا، (1) حالتِ غصہ اور خوشی میں انصاف کرنے والا۔(2) حالت فقر اور غنا میں میانہ روی اختیار کرنے والا۔(3) اللہ تعالی کا عذاب اور اس کی رحمت کی امید رکھنے والا۔

(*) اے بندے! خرچ میں میانہ روی اختیار کر اور اسراف کو ترک کردے۔


(1) لغوی معنی: اس سے مراد "برابر" اور "یکساں ہونا"۔

(2) اصطلاحی معنی: اعتدال و میانہ روی کا مطلب تمام احکام و امور میں ایسی درمیانی راہ اختیار کرنا، جس میں نہ افراط ہونہ تفریط، یعنی نہ شدت ہو اور نہ کوتاہی ہو۔

(3) قرآن مجید کی روشنی میں:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)

ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا "۔(پارہ 15،بنی اسرائیل،29)

(4)حدیث مبارکہ کی روشنی میں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم "درست رہنمائی، اچھی چال اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں جزو ہے"، دولتمندی میں میانہ روی کتنی اچھی بات ہے، فکر و فاقہ میں اور عبادت میں درمیانی چال کتنی اچھی صفت ہے، اعمال میں سب سے بہترین عمل وہ ہے جو درمیانہ درجہ کا ہو۔"

(5)واقعات :

حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کو نکلے، تو آپ نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر نماز میں پست آواز سے تلاوت کر رہے تھے اور حضرت عمر بلند آواز سے قراءت کر رہے ہیں،پھر جب یہ دونوں حضرات آپ کی مجلس میں اکٹھے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"اے ابوبکر! جب میں تمہارے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ تم پست آواز سے قراءت کر رہے تھے، اس کی کیا وجہ تھی؟ ابوبکر نے جواب دیا، کہ میں اس کو سنا رہا تھا جس سے سرگوشی کر رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اے عمر !جب میں تمہارے پاس سے گزرا، تو دیکھا تم بلند آواز سے قراءت کر رہے ہو؟ حضرت عمر نے جواب دیا:' میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا، چنانچہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کرو، اور حضرت عمر سے فرمایا:" اے عمر !تم اپنی آواز پست کرو۔

ایک مرتبہ تین صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ ہر رات جاگ کر نماز پڑھتا رہوں گا، کبھی سویا نہیں کروں گا، دوسرے نے کہا:" کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں، کسی دن افطار نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا:" میں کبھی شادی نہیں کروں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:" جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اللہ پاک سے ڈرنے والا ہوں، لیکن مین کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی افطار کرتا ہوں، راتوں میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، لہذا جس نے میری سنت سے منہ پھیرا، وہ مجھ سے نہیں، اس حدیث مبارکہ میں واضح ہوتا ہے اللہ تعالی نے تمام امور میں غلوو تقصیر سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ دینی عبادات و تعلیمات میں بھی غلوو تقصیر سے کام لینا جائز نہیں۔


اعتدال اور میانہ روی  کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، دینِ اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمّتِ وسط اور میانہ روی اختیار کرنے والی بنایا۔

اعتدال اور میانہ روی کا مطلب: میانہ روی کا مطلب ہے، تمام احکام و اُمور میں ایسی راہ اختیار کرنا جس میں نہ افراط ہو نہ تفريط یعنی "نہ شدت ہونہ ہی از حد کوتاہی"

آیتِ قرآنی سے میانہ روی کی اہمیت:

ربّ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔" (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

دیکھئے! کتنی صاف ہدایت ہے اور کس قدر وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ میانہ روی مؤمن کی صفت ہے اور مؤمن نہ ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا ہے نہ ضروری خرچ کے موقع پر ہاتھ روكتا ہے، بلکہ معتدل رہتا ہے اور میانہ روی کو اپنا کر زندگی کو حُسنِ خوبی سے گزارتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طيبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور توازن و اعتدال کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے۔

مسلم شریف کی حدیث ہے:" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔"

میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال مستحسن ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں میانہ روی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عنایت  فرمائے۔ٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اعتدال اورمیانہ روی  کا معنی و مفہوم:

میانہ روی کے معنی ہیں کہ ہر کام اور ہر حالت میں درمیانی راہ اختیار کرنا اور افراط و تفریط سے اجتناب کرنا۔

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کا پورا نظام معتدل ہے اور اس کے تمام امور نقطۂ اعتدال پر قائم ہیں۔ اس کے اعتقادات میں اعتدال، اعمال وعبادات میں اعتدال، معاشرت وتمدن میں اعتدال، اقتصادیات وسیاسیات میں اعتدال، معاملات وتعلیمات میں اعتدال، الغرض اس کے تمام امور نقطۂ ا عتدال پر قائم ہیں۔ جیسے خرچ کرنے میں نہ تو اسراف کرنا اور نہ بخل کرنا بلکہ درمیانی طریقہ یعنی جود و سخاوت اختیار کرنا، یا ہمت و حوصلہ کے اظہار کے موقع پر نہ تو تہور دکھانا اور نہ بزدل بن جانا بلکہ درمیانی راہ شجاعت کو اختیار کرنا یا اعتقادی اور نظریاتی معاملات میں بھی میانہ روی اختیار کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ اسی عقیدہ پر اعتماد کیا جائے اور وہی نظریہ اپنایا جائے جو دین و دیانت اور عقل ودانش کے اعتبار سے معتدل سمجھا جائے۔ مثلا ًایک عقیدہ جبر کا ہے اور ایک قدر کا ہے۔یہ دونوں عقیدے افراط و تفریط کے حامل ہیں، ان دونوں کے برخلاف درمیانی عقیدہ وہ ہے جو اہل سنت وجماعت کا ہے۔ اسی طرح میانہ روی اختیار کرنے کے حکم کا تعلق معیشت سے ہے۔ ضروریات زندگی پر نہ تو اتنا خرچ کیا جائے جو اسراف و عیش کی حد تک ہو اور نہ اس قدر کم خرچ کیا جائے جو تنگی و تکلیف میں مبتلا کر دے بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال پیدا کیا جائے۔

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نیک راہ روش کسی کام میں آہستگی اور غور و فکر کے لئے تاخیر کرنااور میانہ روی وہ خوبیاں ہیں جو نبوت کے چوبیس اجزاء ميں سے ایک جز ہے۔(مشکوۃ المصابیح حدیث988)

غرض کہ انسانی زندگی کے ہر گوشہ اور ہر فعل میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے اور یہی چیز یعنی ہر ایک امر میں اعتدال اختیار کرنا وہ کمال ہے جو انسان کو اس کی مراد اور اس کے مقاصد تک پہنچاتا ہے کیونکہ بہت دوڑ کر چلنے والاگر جاتا ہے اور سست رفتاری سے چلنے والا بچھڑ جاتا ہے، صرف اعتدال کی چال چل کر ہی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔

اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا ترجمہ کنزالایمان: اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ۔(پ2، البقرۃ:143)

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے : میں سمجھتا ہوں کہ اللہ نے اس امت کو’ امت وسط ‘ کا خطاب اس لئے دیا کہ وہ دین میں میانہ روی اختیار کر تے ہیں، نہ تو ان کے یہاں نصاری جیسا غلوہے ،اور نہ یہودیوں جیسی کوتاہیوں اور مجرمانہ حرکتوں کا تصور ہے لہٰذا اللہ نے اس امت کا یہ وصف اس لئے بیان کیا کہ اللہ کو اعتدال ومیانہ روی پسند ہے۔