حرمین طیبین سے مراد دو پاک حرم یعنی حرم مکہ اور حرم مدینہ ہیں۔ ان دونوں مقامات کو تاریخ اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ کے آخری نبیﷺ کا ظہور اسی شہر یعنی مکہ میں ہوا اور آپ نے اپنی ظاہری زندگی کا زیادہ تر حصہ انہی دو شہروں یعنی مکہ و مدینہ میں گزارا نیز مکہ شریف میں خانہ کعبہ اور مدینہ پاک میں روضہ رسول ﷺ ہے۔

حدود حرم مکہ: عام بول چال میں لوگ مسجد حرام کو حرم شریف کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد حرام، حرم پاک میں ہی داخل ہے مگر حرم پاک مکہ مکرمہ سمیت اس کے ارد گرد میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ (رفیق الحرمین، ص 89)

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے

حدود حرم مدینہ: حرم مدینہ بھی شہر مدینہ میں ہی داخل ہے یہ وہ جگہ ہے جس کو اللہ کے آخری نبی، محمد عربی ﷺ نے حرم فرمایا: چنانچہ حدیث پاک میں ہے، مدینہ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث:6755)

فضائل حرمین طیبین: قرآن و احادیث میں حرمین طیبین کے بے شمار فضائل وارد ہیں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت ہیں:

1) اللہ کے آخری نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت عطا فرمائی جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا،یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت حرام ہے۔

2) اللہ کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت کا) حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (یعنی سب پر غالب آ جائے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (بخاری، 1/617،حدیث: 1871)

حقوق حرمین طیبین: حرمین طیبین بہت نازک مقامات ہیں۔ جہاں معمولی سی بے ادبی عمر بھر کے اعمال اکارت کر سکتی ہے۔جس طرح ان کے فضائل بے شمار ہیں اسی طرح ان کے حقوق و آداب پر بھی علمائے کرام نے باقاعدہ کتب تصانیف فرمائی ہیں۔ چنانچہ طیبہ کے چار حروف کی نسبت سے حرمین طیبین (حرم مکہ و مدینہ)کے چار، چار حقوق ملاحظہ کیجیے۔

حرم مکہ کے حقوق:

1) تعظیم کرنا: حضور علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا: یہ امت بھلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام کریں گے جب اسے ضائع کریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110) لہذا امت کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے حرم مکہ کی تعظیم و حفاظت کرے۔

2) شکار کرنے کی ممانعت: حرم امن کی جگہ ہے لہذا حرم میں قتل وغارت کرنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-(البقرہ: 125) اور ہم نے اس شہر (مکہ) کو امن کا شہر بنایا۔

امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے بلکہ چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔

3) گھاس کاٹنے کی ممانعت: رسول الله ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو الله نے اس دن ہی حرم بنا دیا جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہذا یہ قیامت تک الله کے حرم فرمانے سے حرام ہے اور مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس شہر میں جنگ جائز نہ ہوئی اور مجھے بھی ایک گھڑی دن کی حلال ہوئی چنانچہ اب وہ تاقیامت الله کے حرام کئے سے حرام ہے کہ نہ یہاں کے کانٹے توڑے جائیں اور نہ یہاں کاشکار بھڑکایا جائے اور نہ یہاں کی گری چیز اٹھائی جائے ہاں جو اس کا اعلان کرے وہ اٹھائے اور نہ یہاں کی خشک گھاس کاٹی جائے۔ (مراۃ المناجیح، 2/235)

شرح حدیث: یعنی حرم کے خود رو درخت تو کیا کانٹے توڑنا بھی جائز نہیں،اذخر و کمائت کے سوا وہاں کی سبز گھاس کاٹنا یا اس پر جانور چرانا بھی ہمارے ہاں ممنوع ہے۔

4)حرمت حرم مکہ کی حفاظت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ- (پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کا شغر

حرم مدینہ کے حقوق:

1) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کہ اعلٰحضرت امام اہلسنّت فرماتے ہیں:مدینہ طیّبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گناہگار۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔ (مسند امام احمد، 6/409، حدیث: 18544)

کیوں طیبہ کو یثرب کہوں ممنوع ہے قطعاً موجود ہیں جب سینکڑوں اسمائے مدینہ

2) مدینے کی سختی پر صبر: مدینہ طیبہ منبع فضل و برکات ہے لہذا اگر مدینۃ المنورہ مین کوئی سختی یا آزمائش نیکیوں میں اضافے اور درجات کی بلندی کے لیے تشریف لے آئے تو اس پر صبر، صبر اور صبر ہی کرنا چاہیے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرا جو کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم، ص 548، حدیث: 3339)

3) خاک مدینہ کا ادب: خاک مدینہ میں ہر مرض کی شفا ہے۔خاک مدینہ بلکہ مدینہ منورہ کے ہر ہر مقام، ہر ہر ذرّے کی تعظیم لازم ہے بصورت دیگر اس کی سزا بہت سخت ہے۔ امام مالک نے خاک مدینہ کو خراب کہنے والے کیلیے 30 کوڑے لگانے اور قید میں ڈالے جانے کا فتوی دیا۔

بدن پر ہے عطار کے خاک طیبہ پرے ہٹ جہنم ترا کام کیا ہے

4)آواز دھیمی رکھنا: اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: بارگاہ رسالت ﷺ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ پاک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فقہا نے تو حکم دیاہے کہ جب حدیث پاک کا درس ہو رہا ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں کہ اگرچہ بولنے والا (یعنی حدیث پاک کا درس دینے والا) اور ہے مگر کلام تو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ (شان حبیب الرحمٰن، ص 225)

ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا

اللہ پاک ہمیں ان حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرمین طیبین کی با ادب حاضریاں ہمارا مقدر فرمائے اور بے ادبوں کے سایے سے بھی ہمیں پناہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ