حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلو میٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کر دیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموماً اس کی پہچان ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔ (صراط الجنان، 2/17)

حرم مکہ و مدینہ کے بہت سے فضائل ہیں قرآن کریم میں اللہ پاک نے شہر مکہ کی قسم ارشاد فرمائی فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا ہے اور مدینہ کی طرف حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی۔ مسلمانوں کے دل مدینے کی طرف مائل ہوتے ہیں کیونکہ اس شہر کو رسول اللہ ﷺ سے نسبت حاصل ہے اور عشاق اس کی حاضری کیلئے تڑپتے ہیں۔

امیرِ اہل سنت اپنے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں فرماتے ہیں:

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں

لہذا ہمیں اس کا ادب بجا لانا چاہیے اوردل و جان سے محبت بھی ہونی چاہیے کیونکہ محب کومحبوب سے نسبت رکھنے والی چیز سے محبت ہو جاتی ہے۔ آئیےاس مبارک شہر کے حقوق سننے کی سعادت حاصل کرتی ہیں۔

حرم مدینہ کے درخت نہ کاٹنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مدینے کے دو کناروں کے درمیان یہاں سے کانٹے کاٹنا حرام کرتا ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 4/245)

بیماری و تکلیف پر صبر: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا کوئی امتی مدینہ کی سختیوں اورتکلیفوں پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت والے دن اس کیلئے شفیع اور گواہ ہوں گا۔ (مراۃ المناجیح، 4 /241)

مسلم شریف کی حدیث جو مہری کے غلام سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت ابو سعید خدری کے پاس حاضر ہوئے اور مدینہ شریف سے کوچ کرنے کے بارے میں مشورہ کیا نیز یہاں کی مہنگائی اور اپنی اولاد کی کثرت کا شکوہ کیا کہ مزید یہاں کی مشقت بھری زندگی سے اور بیماری سے اکتا گیا ہوں۔ اس پر حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیر استیا ناس ہو میں اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جبکہ میں نے اپنے آقا و مولی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی یہاں کی سختیوں اور مشقتوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے صبر کرے گا تو قیامت کے دن میں اس کیلئے شفیع اور گواہ ہونگا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا۔ ایسا نہ کر مدینہ ہی کو لازم پکڑ۔

اہل مدینہ سے نیک سلوک: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص مدینہ والوں سے فریب نہ کرے گا مگر وہ ایسے گھل جائے گا جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث:3359)

قتل نہ کرنا: خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالی نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنا دیا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل و جرم کر کے حدود حرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس پر حد قائم کی جائے گی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہاں سے باہر آئے۔ (مدارک، ص 174)

حرم شریف کی گرمی پر صبر: مکہ معظمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبرکرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311، حدیث: (1565

نیز اس کے علاوہ بھی حرم مکہ و مدینہ کے بہت سے حقوق ہیں جیسے وہاں کےکبوتروں کو نہ ڈرانا، تبرکات کی تعظیم و ادب بجالانا، شکار نہ کرنا وغیرہ۔

اللہ کریم اپنے فضل سے ہمیں وہاں کی با ادب حاضری نصیب فرمائے اور حقیقی معنی میں اس کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین