حرمین طیبین کے حقوق از بنت میاں محمد یوسف
قمر، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ

مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ بہت ہی با برکت شہر ہیں یقیناً
ہر عاشق ان کی حاضری کی تمنّا رکھتا ہے۔ رب جسے یہ سعادت نصیب فرمائے اسے چاہیے کہ
فضولیات سے بچتے ہوئے مؤدبانہ حاضری دے اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔ آئیے کچھ
حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ ادب و تعظیم کرنا: حرمین
طیبین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے کہ ان کو حضور جان کائنات
ﷺ سے نسبت ہے۔ حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا:
یہ امّت بھلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام کریں جب اسے برباد کریں
گے ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)
2۔ گناہوں سے بچنا: جس
طرح دیگر مقامات پر گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں بھی گناہوں سے
بچنا نہایت ضروری ہے کہ جس طرح مکہ میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر
اور مدینہ منورہ میں ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے اس قدر یہاں گناہ کرنے
پر سزا بھی بلکہ گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔
3۔ بیماری پر صبر: حرمین
طیبین میں تبدیلی ماحول کے سبب طبیعت کچھ ناساز سی ہو جائے تو بیماری پر صبر کر کے
اجر حاصل کیا جائے کیونکہ یہاں بیماری کی بھی بہت فضیلت ہے، چنانچہ حضرت سعید بن جبیر
رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے جو عمل وہ پہلے
کر رہا تھا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس سے ان کا اجر ملے گا اگر مسافر ہو تو
اسے دگنا اجر ملے گا۔ (اخبار مکہ، 2/311)
4۔ جانوروں کو تکلیف دینے سے
بچنا: انسانوں
کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی ایذا دینے سے بچا جائے۔ مکہ معظمہ کے ارد گرد کئی کوس
تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا،
خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 1/1085)
5۔ شکار سے ممانعت: حرم
مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور
اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔ تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس
لیے حرم کہا جاتا ہے اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)

مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی
کو حرمین شریفین کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں:
ارشاد باری تعالیٰ: لَاۤ
اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ
30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف
فرما ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ: وَ
الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ
فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا
یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱) (پ 14، النحل: 41) ترجمہ کنز العرفان: اور جنہوں نے
اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اسکے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں
دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔
احادیث کی روشنی میں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول
اللہ ﷺ نے مکہ معظمہ سے فرمایا: تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے!
اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔ (ترمذی،
5/487، حدیث: 3952)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے
اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں کا ثواب اور جو مسجد
اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور
جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/176،
حدیث: 1413)
فرمان مصطفیٰ: میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی
پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے) والا ہوں گا۔
(مسلم، ص 712، حدیث: 1378)
حرمین شریفین کے حقوق:
(1)گناہوں سے بچنا: جس
طرح ہر جگہ پر گناہ سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں بھی گناہ سے بچنا انتہائی
ضروری ہے۔ جس طرح مکہ معظمہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ
لاکھ گناہ کے برابر ہے۔
(2)حرم شریفین کی گرمی پر صبر: مکہ
مکرمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں
کی گرمی برکت والی ہے۔اسکے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی
پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔
(3)طویل قیام کی ممانعت: وہاں
طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے۔ اگر وہاں بدنگاہی،جھوٹ،غیبت،چغلی،وعدہ
خلافی،تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ بار صادر ہونے
کے برابر ہے۔ گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ مکرمہ کی ہیبت کے کم ہونے
کا اندیشہ ہے۔
(4) مکہ مکرمہ میں بیماری پڑ صبر: مکہ
مکرمہ میں جانے سے عموماً ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے طبعیت کچھ ناراض ہو جاتی ہے۔ مکہ
مکرمہ میں برکتوں والی بیمار کی بھی کیا فضیلت ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: (مفہوم) جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے۔ جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا بیماری
کی وجہ سے نہ کر سکا تو اسے ان کا اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو دگنا اجر ملے گا۔
(5) شکار کی ممانعت: مکہ
جس طرح انسانوں کے لئے امن والا ہے۔ اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے۔اور اسی
وجہ سے مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔
(6)درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم
مدینہ کے حقوق میں سے ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے کیونکہ
یہ حرام ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرام ہے۔ لہذا
اسکے درخت وغیرہ نہ کاٹے جائیں۔
(7)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ
منورہ کی ہر چیز نفیس وعمدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و عیب نہیں، اگر بالفرض
کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا اندھا و عقل کی کمی
سمجھے ورنہ اس کے بہت سخت سزا ہے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ پاک کی مبارک
مٹی کو خراب کہنے والے کے لیے 30 کوڑے لگانے اور قید میں ڈالنے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء،2/57)
(8) تکلیف نہ پہنچانا: حرم
مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار ومحبت سے پیش آئے۔ تکلیف
تو دور کی بات صرف اسکا ارادہ کرنے والے کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے اس
طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث: 3359)
(9) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ
منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس شہر مقدس کے شایان شان نہیں۔ جس طرح
کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ
میں استغفار کرے کیونکہ کی مدینہ طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1867)
(10) وہاں فضولیات و لغوات سے بچنا۔
(11)آواز کو پست رکھنا۔
(12) ہمیشہ زبان کو درود شریف سے تر رکھنا۔
حرمین طیبین کے حقوق از بنت وسیم عطاریہ، فیضان
فاطمۃ الزہرا صدر راولپنڈی

حرمین طیبین وہ جگہ ہے جہاں جانے کو ہر کوئی ترستا ہے
جہاں کے دیدار کو ہر مسلمان اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا ہے اس جگہ کے چند حقوق درج
ذیل ہیں:
1۔ حرمین طیبین کی تعظیم: حرمین
طیبین شعائر اللہ میں سے ہیں اور ان کی تعظیم کو خود رب تعالیٰ نے تقوی قرار دیا ہے
لہذا ہمیں چاہیے کہ ان کی دل سے تعظیم کریں اور رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش
کریں۔
2۔ ان کی حاضری کی آرزو: یہ
بھی ان کے حقوق میں سے ہے کہ ان میں حاضر ہونے کی خواہش رکھی جائے اور جب بھی موقع
ملے تو ضرور حاضر ہوں۔
3۔ ان سے محبت: ان
کی محبت دراصل اللہ اور رسول کی محبت ہے لہذا ان کی محبت کو دل میں اجاگر کیا جائے
4 ان میں زیادہ تر وقت نیکیوں میں گزارنا:
یہاں
جا کر اپنا اکثر وقت نیکیوں میں گزارا جائے اور وہا ں کی سب سے بڑی عبادت طواف اور
زیارت روضۂ رسول ہے۔
5 ان کی گرمی پر صبر: یہاں
پر آنے والی ہر ایک تکلیف اور بیماری کا خوش دلی سے استقبال کیا جائے کہ یہ تو وہ درد
ہے جو راہ در جاناں میں نصیب ہوئے ہیں۔
6 طویل قیام کی ممانعت: وہاں
طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے اگر وہاں بدنگاہی کی غیبت چغلی جھوٹ
وعدہ خلافی تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر گناہ صادر ہونے سے
کئی گنا زیادہ ہے گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی حرمین کی ہیبت کے کم ہونے
کا خدشہ ہے۔
7 گناہوں سے بچنا:جس
طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرم مکہ میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری
ہے جس طرح کے یہاں کا ایک گناہ دیگر جگہوں کے گناہ کے مقابلے میں کئی درجے بڑا ہے۔
حرمین طیبین کے حقوق از بنت امتیاز حسین عطاریہ،
جامعۃ المدینہ جوہر آباد خوشاب

حرمین طیبین نہایت ہی برکت والے اور عظمت والے مقامات
ہیں جس میں ہر دم رحمتوں کی چھما چھم بارش برستی ہے یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں فرشتوں
کا نزول ہوتا ہے ایک طرف مکہ مکرمہ اللہ پاک کا گھر ہے تو دوسری طرف مدینہ منورہ میں
حضور ﷺ کا روضہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو حرمین طیبین یعنی مکہ مدینہ
میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروز قیامت امن والے لوگوں میں اٹھائے گا۔
حرمین طیبین کے درج ذیل حقوق ہیں:
حرمین طیبین کا ادب: خانہ
کعبہ کی زیارت و طواف روضہ رسول پر حاضر ہو کر دست بستہ صلوۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت
حرمین طیبین کے دیگر مقدس و بابرکت مقامات کے پر کیف نظاروں کی زیارت سے اپنی روح و
جان کو سیراب کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے لہذا جس خوش نصیب کو بھی یہ سعادت میسر
آئے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر قسم کی خرافات و فضولیات سے بچتے ہوئے اس سعادت سے بہرہ
ور ہو حرمین طیبین کا خوب ادب و احترام کرے خاص طور پر روضہ رسول پر اونچی آواز سے
بولنا سخت ادب کے خلاف ہے۔ آیت مبارکہ میں ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،
الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی
نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے
سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں
خبرنہ ہو۔
حرمین طیبین میں شکار کی ممانعت: حرمین
طیبین میں شکار کرنے سے منع کیا گیا ہے کہ یہ حرم کی حدود کے خلاف ہےحرمین طیبین ادب
والےشہر ہیں جس طرح یہ انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن
والا ہے وہاں کے جانوروں کو ایذا نہ دی جائے خاص طور پر مدینہ کی بلی یا کبوتروں کو
ان کے وطن سے جدا نہ کیے جائے تفسیر احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس لیے حرم کہا گیا ہے
کہ اس میں قتل اور شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)
حرمین طیبین میں گناہوں سے بچنا: جس
طرح ہر جگہ گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں بھی گناہوں سے بچنا ضروری
ہے کہ ان مقدس مقامات پر گناہ کا ارادہ کرنا بھی گناہ ہے اسی طرح مکہ مکرمہ کی فضیلت
بیان کی گئی کہ مکہ مکرمہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اور ایک گناہ لاکھ
گناہ کے برابر ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236) اور یہی حکم مدینہ پاک کا بھی ہے۔
حرمین طیبین میں درخت کاٹنا اور گھاس اکھیڑنا:
حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہاں درخت نہ
کاٹے جائیں اور سوائے تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز کوئی نہ اٹھائے۔ (مراۃ
المناجیح، 2/235)حرم کی حد کے اندر تک گھاس اکھیڑنا خود رو پیڑ کاٹنا اور وہاں کے وحشی
جانوروں کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 1/1085)
حرمین طیبین میں عبادت: حرمین
طیبین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جو بہت ہی مقدس مقامات ہیں جہاں فرشتوں کا نزول
ہوتا ہےان مقدس مقامات میں عبادت کا ثواب اور زیادہ بڑھ جاتا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو اپنے گھر میں نماز پڑھے اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں
کا ثواب اور جو مسجد اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار
نمازوں کے برابر اور جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن
ماجہ، 2/176، حدیث: 1413)ان مقامات پر جب بھی حاضری کا شرف نصیب ہو تو ہمیں چاہیے کہ
دل لگا کر عبادت کریں عبادت میں کوئی بھی کوتاہی نہ برتیں کہ ہو سکتا ہےکہ ان عبادات
کے سبب ہمارے گناہ بخش دیئے جائیں۔

حرم مکہ اور حرم مدینہ کی حدود: مکہ
معظمہ کے ارد گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے،ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ حرم مدینہ
شہر مدینہ کے اندر ہی ہے۔ بخاری شریف میں ہے: مدینہ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک
حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث: 6755)
حرم مکہ کے حقوق:
(1)حرم مکہ کی تعظیم: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس کے حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک
ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)
(2) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی تعظیم: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ
رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے
اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)
(3)درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت
کاٹنا ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)
حرم مدینہ کے حقوق:
(1)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ
منورہ کی ہر چیز عمدہ و اعلٰی ہے اس میں کسی عیب ونقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی
طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کے بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا و عقل
کی کمی سمجھے۔
(2) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ
منورہ کو یثرب کہنا جائز نھیں (یثرب کا مطلب بیماریوں کا گھر ہے)کیونکہ یہ لفظ اس شہر
مقدس کی شان کے لائق نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیئے کہ
وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ ہے، طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616،
حدیث: 1867)
(3) آواز پست رکھنا: جس
طرح حضور ﷺ کی ظاہری حیات میں ان کے سامنے آواز پست رکھنے کا حکم تھا اسی طرح اب بھی
کوئی مدینہ منورہ جائے تو اپنی آواز پست رکھے کیونکہ وہاں آواز اونچی کرنا ساری زندگی
کے اعمال اکارت کردیتی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،
الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی
نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے
بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔

حضور نبی اکرم ﷺ اللہ پاک کے سب سے بڑھ کر محبوب رسول ہونے کے باوجود اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں میں
اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ
ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کی عبادت
کا طریقہ کیا تھا اور وہ کس وقت کون سی
عبادت کرتے تھے!لیکن حضور پر نور ﷺ کے عبادات کو آپ کے صحابہ علیہم
الرضوان نے ملاحظہ فرمایا اور گھر میں جو عبادات کرتے تھے اسے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے اپنی یاداشت میں
محفوظ کیا اور ساری امت کو بتا دیا ۔
آقا ﷺ کی عبادات میں سے ایک عبادت روزہ بھی ہے۔روزے 10 شعبان 2 ھ میں فرض ہوئے۔آپ روزے فرض ہونے
سے پہلے بھی روزہ دار رہا کرتے۔رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی روزہ دار ہی رہتے تھے۔سال کے باقی مہینوں
میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا
کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے،پھر چھوڑ دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ کبھی روزہ نہیں رکھیں
گے۔خاص کر ہر مہینے میں ایامِ بیض(چاند کی14،13اور15تاریخ)کے روزے،دو شنبہ و جمعرات
کے روزے،عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے،شوال کے چھ روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔کبھی کبھی آپ صومِ وصال بھی رکھتے تھے،(یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ)،لیکن اپنی امت کو ایسا
روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!
آپ تو صومِ وصال رکھتے ہیں!ارشاد فرمایا:تم
میں مجھ جیسا کون ہے؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اوروہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری،1/645،حدیث:1961)
رسول اللہ ﷺ نےنفلی روزوں کے بارے میں فرمایا:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اس کے لیے جنت
میں ایک درخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل
انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد سے میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا، اللہ
پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا
پھل کھلائے گا۔(معجم کبیر ،18/366، حدیث:935(
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت
فرماتی ہیں:نبیوں کے سر تاج، صاحبِ معراج ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال
رکھتے تھے۔(ترمذی ،2/186، حدیث: 745)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک ﷺ فرماتے ہیں:پیر اور
جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ
میں روزہ دار ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
حضور
ﷺ نے فرمایا:جس نے رضائے الٰہی کیلئے ایک دن کا نفل
روزہ رکھا تو اللہ پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی پچاس سالہ
مسافت (یعنی فاصلے ) تک دور فرما دے گا۔
(کنز
العمال،8/255، حدیث:24149)
فرمایا:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین
بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے
دن ملے گا۔(مسند ابی یعلی ،5/253، حدیث: 6104)
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت اشرف
چشتی،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی، گجرات

ہمارے پیارے آقا ﷺ روزوں سے بہت محبت فرماتے تھے،اس
لیے آپ خود بھی روزے رکھتے اور دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دلاتے تھے،چنانچہ ام المومنین
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ
پاک کے حبیب ﷺ چار چیزوں کو نہیں چھوڑتے تھے:(1)عاشورا(2)عشرۂ
ذی الحجہ اور(3)ہر مہینے میں تین روزے(4)فجر سے پہلے
دو رکعتیں(دو سنتیں)۔ (نسائی، ص 395 ،حدیث:
2413)
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ طبیبوں
کے طبیب،اللہ پاک کے حبیب ﷺ ایامِ بیض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر
میں۔
(نسائی،ص386،حدیث:2342 )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آقائے
دوجہاں،رحمتِ عالمیان ﷺ روزوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔ مزید ملاحظہ کیجئے کہ آقائے
مدینہ ﷺ اپنا یومِ ولادت بھی روزہ رکھ کر مناتے تھے جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینے کے تاجدار،رسولوں کے
سالار،نبیوں کے سردار ﷺ سے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :اسی
میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔
(
مسلم،ص591،حدیث: 1162)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے کہ میرے سر تاج،صاحبِ معراج ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال رکھتے تھے۔(ترمذی،
2/187،حدیث:745)
آقا ﷺ کی روزوں سے محبت اس بات سےبھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ یہ پسند کیا کرتے
کہ اعمال پیش ہوتے وقت بھی روزہ دار ہوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:پیر اور
جمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ
میں روزہ دار ہوں۔(ترمذى،2 / 187 ،حديث: 748)
آپ اسی محبت کی وجہ سے نہ صرف خود روزے رکھتے بلکہ
دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دلاتے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:جس نے رمضان،شوال،بدھ
اور جمعرات کا روزہ رکھا وہ داخلِ جنت ہو گا۔
(نسائی، 2/147،حدیث:2778)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو
روزوں سے محبت تھی اور یہ آپ کی محبوب ترین عبادت تھی۔لہٰذا ہمیں بھی اپنے آقا ﷺ کی
محبوب ترین عبادت سے محبت رکھنی چائیے اور روزے رکھنے چاہئیں۔
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت محمد
ریاض،فیضان خدیجۃ الکبری کنگ سہالی ،گجرات

حضور نبی رحمت ﷺ کا قلبِ اطہر ایسے پاکیزہ امور سے
محبت رکھتا تھا جو اللہ پاک کی رضا و خوشنودی کو لازم ٹہرائیں۔نبی کریم ﷺ کو جہاں
دیگر اعمالِ صالحہ سے محبت تھی وہیں آقا کریم ﷺ روزہ رکھنے کو نہایت پسند فرماتے۔چنانچہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور ﷺ
کی خوشی دیدنی ہوتی۔
1۔آمد رمضان پر آقا کریم ﷺ
کا عمل:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر
منگتے کو عطا کرتے تھے۔
(شعب الایمان، 3/311،حدیث:3629
)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یوں تو سرکار(ﷺ)
ہمیشہ ہی سائل کو دیتے تھے ،کریم ہیں ، سخی ہیں ، داتا ہیں مگر رمضان المبارک میں
آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔
(مراۃ المناجیح،3/142)
حضورِ اکرم ﷺ نہ صرف فرض روزوں کے لیے اہتمام
فرماتے بلکہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتے چنانچہ اس ضمن میں چند احادیثِ مبارکہ
ملاحظہ فرمائیے:
1:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے
عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس
طرح کسی مہینے میں نہیں رکھتے ؟فرمایا:رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ،لوگ
اس سے غافل ہیں ،اس میں لوگوں کے اعمال رب کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ
محبوب ہے کہ میرا عمل اس حال میں اٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔
(نسائی،ص387،حدیث: 2354)
2:حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اعمال پیر و جمعرات
کو پیش کئے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل اس حال میں پیش ہوں کہ میں
روزے والا ہوں۔
(ترمذى،2 / 187 ،حديث:
748)
خیال رہے کہ سال بھر کے اعمال کی تفصیلی پیشی شعبان
میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کے ہاں سال کا آخری مہینا ہے اور پہلا مہینا رمضان
ہےغرضیکہ فرشی سال اور ہے جس کی ابتدا محرم سے اور انتہا بقر عید پر ہے عرشی سال کچھ اور ہے۔ (مراۃ
المناجیح،/190)
3:حضور ﷺ ایامِ بیض کے روزے نہ چھوڑتے:حضرت
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایامِ بیض کے روزے نہ چھوڑتے
نہ گھر میں نہ سفر میں۔(نسائی،ص386،حدیث:2342 )
یہاں مرقات نے فرمایا:ایام ِبیض کے متعلق علماء کے
نو قول ہیں جن میں سے زیادہ قوی قول یہ ہے کہ وہ چاند کی تیرھویں،چودھویں،پندرھویں
راتیں ہیں۔( مراۃ المناجیح،3/195)
حضور ﷺ کو عاشورا کے روزے سے بے حد محبت تھی جس کی
دلیل یہ روایت ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول
اللہ ﷺ کو نہ دیکھا کہ آپ کسی دن کے روزوں کو دوسرے دنوں پر بزرگی دے کر تلاش کرتے ہوں سوائے
عاشورا کے دن کےاور رمضان کے روزوں کے۔
(بخاری،1/657،حدیث:2006)
آقا کریم ﷺ کو روزہ رکھنا اس قدر عزیز تھا کہ شدید
گرمی میں بھی اس کو نہ چھوڑتے جیساکہ روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ کو مقامِ عرج میں بحالتِ روزہ سر مبارک
پر پیاس یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے دیکھا گیا۔
(ابو داود،2/450،حدیث:2365)
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ آقا کریم ﷺ کو
روزہ رکھنا کس قدر پسند تھا۔اللہ کریم ہمیں بھی حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے
فرائض و نوافل کی کامل و مقبول ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آ رہے ہیں۔روزے کا
مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے جس کی ترغیب ہمیں حضور ﷺ کے عمل مبارک سے بھی
ملتی ہے۔حضور ﷺ فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے۔
حدیثِ مبارکہ:حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک ﷺ کبھی اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہمارا خیال ہوتا
کہ اب کبھی روزے نہ چھوڑیں گے اور پھر کبھی آپ اتنے روزے چھوڑ دیتے کہ ہمارا خیال ہوتا کہ آپ روزے کبھی بھی نہ رکھیں گے۔(نسائی،ص387،حدیث:2354)مدینہ
طیبہ تشریف لانے کے بعد آپ نے سوائے ماہِ رمضان
کے کبھی بھی مکمل اور مسلسل ایک مہینے کے روزے نہیں رکھے اور نہ کسی ماہ میں آپ کو
شعبان سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھا۔(بخاری،1/
648،حدیث: 1969)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار اور پیر کا
روزہ رکھتے اور دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کا۔ (ترمذی،2/186،
حدیث:746)
آقا ﷺ نے کسی کو بھی محروم نہ فرمایا یہاں تک کہ
ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے روزے تقسیم کر دیئے
تھے تاکہ کوئی دن حضور ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے۔ایک مہینے میں تین دن
اور اگلے مہینے میں اگلے تین دن کے روزے رکھتے اور جمعے کے روزے کی تو عادت کریمہ
تھی ہم لوگ دنوں سے برکت پاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ:پیارے
آقا ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ان کے متعلق آپ
نے ارشاد فرمایا:پیر اور جمعرات کو اعمال(بارگاہِ الٰہی)میں پیش کیے جاتے ہیں،لہٰذا
میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔(ترمذی،2/186، حدیث: 745)
ولادت شریف کے دن روزہ:آقا
کریم ﷺ اپنی ولادت شریف کا دن روزہ رکھ کر منایا کرتے تھے۔چنانچہ
ایک مرتبہ جب آپ سے پیر شریف کے دن روزہ رکھنے کے
بارے میں سوال کیا گیا تو ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی
دن میں مبعوث ہوا یا مجھ پر قرآن نازل فرمایا گیا۔
(مسلم،ص 455، حدیث: 2747)
اس کے علاوہ آپ ہرمہینے میں تین دن ایامِ بیض کے
روزے،دو شنبہ و جمعرات کے روزے،عاشورا کے روزے،عشرۂ ذی الحجہ کے روزے، شوال کے چھ
روزے معمولاً رکھا کرتے تھے۔دس محرم شریف کا روزہ خود بھی رکھا اور اس کے رکھنے کا
حکم بھی ارشاد فرمایا۔(سیرتِ مصطفی ، ص597،596)
روزہ داروں کے واسطے وَاللہ مغفرت کی نوید ہوتی ہے
اللہ پاک ہمیں بھی پیارے حبیب ﷺ کے صدقے فرض روزوں
کے ساتھ ساتھ نوافل کی پابندی کرنےکی بھی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت محمد
ندیم،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور، سیالکوٹ

آقا کریم ﷺ شعبان کے اکثر روزے رکھا کرتے تھے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہﷺ شعبان سے زیادہ
کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور
فرمایا کرتے:اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ پاک اُس وقت تک اپنا فضل نہیں
روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔(بخاری،1/ 648،حدیث:1970)
شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے
تعلیباً (یعنی غلبے اور زیادت کے لحاظ سے )کُل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے)سے
تعبیر کر دیا جیسے کہتے ہیں:فلاں نے پوری رات عبادت کی،جب کہ اُس نے رات میں کھانا
بھی کھایا ہو اور ضروریات سے فراغت بھی کی ہو،تغلیباً اکثر کو کل کہہ دیا۔مزید
فرماتے ہیں:حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزہ
رکھے۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رمضان کے روزوں پر اثر پڑے
گا۔یہی محمل(یعنی مراد مقصد) ہے ان احادیث(مثلاً ترمذی،2/ 183،حدیث:738 وغیرہ) کا
جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو۔
(ترمذی،2/183،حدیث:738)( نزہۃ القاری،3/380،377)
( آقا کا مہینا، ص6)
آپ نے پڑھا کہ ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ
اس ماہِ مبارک کو کس قدر پسند فرماتے، حالانکہ اس مہینے میں روزے فرض نہیں مگر پھر
بھی آپ کثرت سے روزہ رکھا کرتے۔اب ذرا غور
کیجئے کہ پیارے آقا، دو جہاں کے داتا ﷺ سند المعصومین ہو کر بھی اس ماہِ مبارک کے
اکثر دن روزے کی حالت میں گزاریں تو ہم گناہگاروں کو اس ماہ میں روزے رکھنے کی کتنی
ضرورت ہے!ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے
روزوں کے علاوہ نفل روزے رکھنے کی بھی عادت بنائیں کہ
اس میں ہمارے لئے بے شمار دینی فوائد کے
ساتھ ساتھ کثیر دنیوی فوائد بھی ہیں۔
دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت،گناہوں سے بچت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں
تک دنیوی فوائد کا تعلق ہےتو روزے میں دن اور رات کے اوقات میں کھانے پینے میں صرف
ہونے والے وقت اور اخراجات،پیٹ کی اصطلاح اور معدے کو آرام ملنے کے ساتھ ساتھ دیگر
کئی بیماریوں سے حفاظت کا سامان ہےاور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ اس سے اللہ پاک
راضی ہو جاتا ہے۔ہمیں بھی چند دن کی تکلیف سہہ کر بے شمار دینی اور دنیوی فوائد کے
حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔مزید یہ کہ نفل روزے رکھنے کا اجر تو اتنا ہے کہ ہم روزے
رکھتی ہی چلے جائیں۔
آقا کریم،سرورِ کائنات،رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:جس
نے ثواب کی نیت سے یا ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اُس سے
دوزخ سے چالیس 40 سال کا فاصلہ دور فرمادے گا۔
(کنز العمال ، 8 / 255 ،حدیث:(24148
اللہ پاک کے حبیب ﷺ کا ایک اور فرمانِ رغبت نشان ہے:اگر
کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا تو زمین بھر
سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہو گا۔اس کا ثواب تو قیامت کے دن ہی ملے گا۔
(مسند ابی یعلی،5/353،حدیث:6104)(فیضانِ
سنت،ص1331)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یا
رسول اللہﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی
عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس
جیسا کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو
کیونکہ اس کی کوئی مثل نہیں۔
(نسائی،ص370،حدیث:2220)(فیضانِ سنت،ص1338)

رمضان شریف میں روزے رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن
اس ماہ کے علاوہ روزے رکھنا بھی ثواب کا کام ہے۔روزے
ہمارے لیے بخشش کا سامان کریں گے۔پیارے آقا ﷺ فرض روزوں کے علاوہ بہت سے نفل روزے
بھی رکھتے تھے۔
روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرنے کے
لیے روزے سے بہتر اور کوئی عمل نہیں۔اللہ پاک نے بھی روزے کی فرضیت کا مقصد تقویٰ
قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ
عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183) ترجمہ:اے
ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)
حضور ﷺ کا روزہ رکھنا:یہی
سبب تھا کہ حضور ﷺ کو اس عبادت سے اتنا شغف تھا کہ آپ اکثر روزے سے رہتے تھے اور صیامِ
وصال یعنی پے در پے بغیر افطار کیے روزے رکھتے بلکہ ہر مہینے میں تین روزے ضرور
رکھتے۔رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔آپ اس ماہِ مقدس کی
تیاری شعبان سے ہی شروع فرما دیتے تھے اور
شعبان میں دوسرے مہینوں کی بنسبت کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
حضور ﷺکی حیاتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے حالتِ
حضر میں کبھی روزہ قضا نہیں فرمایا تاہم سفر کے دوران آپ کا معمول تھا کہ کبھی
روزہ رکھ لیتے اور کبھی قضا فرما لیتے۔یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے تھا کہ آپ کی
سراپا رحمت ذات کو ہرگز گوارا نہ تھا کہ اپنی امت کو مشقت میں ڈالیں۔
حضور ﷺکی روزوں سے محبت احادیثِ مبارکہ
کی روشنی میں:
حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کے روزے رکھنے کے
متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:کبھی
آپ اس طرح متواتر روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزے ہی رکھیں گے اور جب روزے نہ
رکھتے تو ہم لوگ کہتے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے۔(نسائی،ص387،حدیث:2354)فرماتی ہیں:مدینہ منورہ تشریف آوری کے
بعد سے رمضان المبارک کے علاوہ آپ نے کسی پورے مہینے کے روزے رکھے۔
(مسلم ،ص863،حدیث:2724)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور
ﷺ ہر مہینے کی ابتدا میں تین دن روزہ رکھتے تھے اور جمعہ کے دن بہت کم افطار
فرماتے تھے۔(ترمذی ،2/185،حدیث:742)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضورﷺ کسی ایک مہینے میں ہفتہ،اتوار
اور پیر کو روزہ رکھ لیتے اور دوسرے ماہ منگل،بدھ اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے
تھے۔
(ترمذی،2/186،
حدیث:746)
حضرت انس رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے:حضور نبی اکرم
ﷺنے مہینے کے آخر میں وصال کا روزہ رکھ لیا تو لوگوں نے بھی شوق سے صومِ وصال رکھ
لیے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ مہینا ختم نہ ہوتا تو میں صومِ وصال کو اتنا طویل
فرماتا کہ ضدی لوگ اپنی ضد چھوڑ دیتے۔بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو اس حال
میں رہتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔
(بخاری،1/645، حدیث: 1961)(بخاری،4 /488، حدیث:7242)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:پیر اور جمعرات کے دن اعمال بارگاہِ
خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں۔میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش کیا جائے اورمیں
روزہ سے ہوں۔(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
حضور ﷺ کی روزوں سے محبت از بنت رمضان
احمد،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ

روزہ داروں کے لئے بخشش کی بشارت:
1-قرآنِ پاک میں
روزوں کے بارے میں ارشادِ باری ہے:وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ
وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ
مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)(پ22،الاحزاب:35)ترجمہ:اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی
پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور
یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
2-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ2،البقرۃ:183)ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض
ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
تفسیرصراط الجنان:اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبحِ صادق سے
لے کر غروبِ آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔
(تفسیر خازن،1 / 119)
روزہ بہت قدیم عبادت ہے:آیت میں فرمایا گیا کہ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے
فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف
ہوتے تھے۔یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔(در مختار،3/ 383)
روزے کا مقصد:آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔روزے
میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا
جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور
حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی
چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔قرآنِ پاک میں ہے:وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ
الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱)
(پ30،النزعت:40،41)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے
سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
حضورﷺ روزوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:آئیے!احادیثِ
مبارکہ ملاحظہ فرما ئیے:
1-حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یارسول
اللہ ﷺ!مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل
نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا
کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ
اس کا کوئی مثل نہیں۔(نسائی،ص370،
حدیث:2220)
2- روزے کو آپ ﷺ بہت محبوب رکھتے تھےاور آپ کی عادت ِمبارکہ
میں یہ چیز بکثرت شامل تھی، اسی وجہ سے ہر مہینے کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ روزوں کی
فضیلتوں کو بیان کیا گیا۔پیر شریف کے روزے کی فضیلت کو الگ بیان کیا گیا۔چنانچہ
پوچھا گیا:یا رسول اللہ ﷺ!آپ پیر کو روزہ رکھتے ہیں!تو اللہ پاک کے رسول ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اسی دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔
(مسلم،ص 591 ،حدیث: 198)( صبحِ بہارا ں، ص21)
3- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا:اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں، لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے
اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ والا ہوں۔
(ترمذی،2/187،حدیث: 747)
4- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ ﷺ ایک مہینے
میں ہفتہ، اتوار اور پیر کا روزہ رکھتے تھے اور دوسرے مہینے منگل، بدھ اور جمعرات
کا۔(ترمذی،2/186، حدیث:746)یعنی میرے پیارے نبی کریم ﷺ ہفتے کے سارے دنوں میں اپنے
روزے تقسیم کر دیتے تھے تاکہ کوئی دن حضور پاک ﷺ کے روزے کی برکت سے محروم نہ رہے،
گویا آپ ﷺ مہینے میں تین دن اور دوسرے مہینے میں اگلے تین دن روزے رکھتے تھے،نبی
پاک ﷺ کی عبادات سے دن برکت پاتے تھے، جیسے ہم چاند سے روشنی پاتے ہیں اور چاند
سورج سے۔(مراۃ المناجیح، 3/190)
5- اُمّ المُومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے روا یت ہے کہ حضور ﷺ پُورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔فرماتی ہیں:میں
نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ ﷺ! کیا سب مہینو ں میں آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان
کے روزے رکھنا ہے؟توشفیعِ روز ِشمار ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک اِس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور
مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وقتِ رُخصت آئے اور میں روزہ دارہوں۔
( مسندِابی یعلی
،4/277،حدیث:4890)
جنت کا انوکھا درخت:حضرت قیس بن زید جُہَنّی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کےپیارے محبوب ﷺ
کا فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اس کےلیے جنت میں ایک
درخت لگائےگا جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور
خوش ذائقہ ہوگا،اللہ پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھائے گا۔
(معجم کبیر،18/366،حدیث:935)(مدنی
پنج سورہ، ص294)
جہنم سے دوری:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم ﷺ کا فرمانِ عافیت
نشان ہے:جو اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو اللہ پاک اسے جہنم سے
ستر(70)سال کی راہ دور رکھے گا۔(بخاری،2/265،حدیث:2840)یہاں روزے سے مراد نفل روزہ ہے۔اس لیے صاحبِ مشکوۃ یہ حدیث نفل روزے کے باب میں
لائے ہیں یعنی بندہِ مومن اگر نفل روزہ رکھے اور اللہ پاک رحیم و غفور اس کو اپنے
کرم سے قبول کرے تو دوزخ میں جانا تو کیا وہ دوزخ کے قریب بھی نہ ہوگا اور وہاں کی
ہوا بھی نہ پائے گا۔(مراۃ المناجیح،3/187)