مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی
کو حرمین شریفین کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم کی روشنی میں:
ارشاد باری تعالیٰ: لَاۤ
اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ
30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف
فرما ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ: وَ
الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ
فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا
یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱) (پ 14، النحل: 41) ترجمہ کنز العرفان: اور جنہوں نے
اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اسکے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں
دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔
احادیث کی روشنی میں:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول
اللہ ﷺ نے مکہ معظمہ سے فرمایا: تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے!
اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔ (ترمذی،
5/487، حدیث: 3952)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے گھر میں نماز پڑھے
اسے 25 نمازوں کا ثواب، جامع مسجد میں نماز پڑھے اسے 500نمازوں کا ثواب اور جو مسجد
اقصی اور میری مسجد(مسجد نبوی) میں نماز پڑھے اسے پچاس ہزار نمازوں کے برابر اور
جو مسجد حرام میں پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ (ابن ماجہ، 2/176،
حدیث: 1413)
فرمان مصطفیٰ: میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی
پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے) والا ہوں گا۔
(مسلم، ص 712، حدیث: 1378)
حرمین شریفین کے حقوق:
(1)گناہوں سے بچنا: جس
طرح ہر جگہ پر گناہ سے بچنا ضروری ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں بھی گناہ سے بچنا انتہائی
ضروری ہے۔ جس طرح مکہ معظمہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح ایک گناہ
لاکھ گناہ کے برابر ہے۔
(2)حرم شریفین کی گرمی پر صبر: مکہ
مکرمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جسکی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں
کی گرمی برکت والی ہے۔اسکے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی
پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔
(3)طویل قیام کی ممانعت: وہاں
طویل قیام کرنا گناہوں کے سبب ہلاکت کا خوف ہے۔ اگر وہاں بدنگاہی،جھوٹ،غیبت،چغلی،وعدہ
خلافی،تلخ کلامی وغیرہ جرائم کا ارتکاب گویا کسی اور مقام پر ایک لاکھ بار صادر ہونے
کے برابر ہے۔ گناہوں سے محتاط رہنے والوں کے لیے بھی مکہ مکرمہ کی ہیبت کے کم ہونے
کا اندیشہ ہے۔
(4) مکہ مکرمہ میں بیماری پڑ صبر: مکہ
مکرمہ میں جانے سے عموماً ماحول کی تبدیلی کی وجہ سے طبعیت کچھ ناراض ہو جاتی ہے۔ مکہ
مکرمہ میں برکتوں والی بیمار کی بھی کیا فضیلت ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: (مفہوم) جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے۔ جو عمل وہ پہلے کر رہا تھا بیماری
کی وجہ سے نہ کر سکا تو اسے ان کا اجر ملے گا اگر بیمار مسافر ہو تو دگنا اجر ملے گا۔
(5) شکار کی ممانعت: مکہ
جس طرح انسانوں کے لئے امن والا ہے۔ اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے۔اور اسی
وجہ سے مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔
(6)درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم
مدینہ کے حقوق میں سے ہے کہ اس حدود میں موجود درختوں وغیرہ کو نہ کاٹا جائے کیونکہ
یہ حرام ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مدینہ یہاں سے وہاں تک حرام ہے۔ لہذا
اسکے درخت وغیرہ نہ کاٹے جائیں۔
(7)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ
منورہ کی ہر چیز نفیس وعمدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک و عیب نہیں، اگر بالفرض
کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے اپنی آنکھوں کا اندھا و عقل کی کمی
سمجھے ورنہ اس کے بہت سخت سزا ہے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے مدینہ پاک کی مبارک
مٹی کو خراب کہنے والے کے لیے 30 کوڑے لگانے اور قید میں ڈالنے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء،2/57)
(8) تکلیف نہ پہنچانا: حرم
مدینہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پیار ومحبت سے پیش آئے۔ تکلیف
تو دور کی بات صرف اسکا ارادہ کرنے والے کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے اس
طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (مسلم، ص 551، حدیث: 3359)
(9) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ
منورہ کو یثرب کہنا جائز نہیں کیونکہ یہ لفظ اس شہر مقدس کے شایان شان نہیں۔ جس طرح
کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ
میں استغفار کرے کیونکہ کی مدینہ طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616، حدیث: 1867)
(10) وہاں فضولیات و لغوات سے بچنا۔
(11)آواز کو پست رکھنا۔
(12) ہمیشہ زبان کو درود شریف سے تر رکھنا۔