حرمین طیبین کے حقوق از بنت میاں محمد یوسف
قمر، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ
مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ بہت ہی با برکت شہر ہیں یقیناً
ہر عاشق ان کی حاضری کی تمنّا رکھتا ہے۔ رب جسے یہ سعادت نصیب فرمائے اسے چاہیے کہ
فضولیات سے بچتے ہوئے مؤدبانہ حاضری دے اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔ آئیے کچھ
حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ ادب و تعظیم کرنا: حرمین
طیبین کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے کہ ان کو حضور جان کائنات
ﷺ سے نسبت ہے۔ حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا:
یہ امّت بھلائی پر رہے گی جب تک اس حرمت کا بحق تعظیم احترام کریں جب اسے برباد کریں
گے ہلاک ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)
2۔ گناہوں سے بچنا: جس
طرح دیگر مقامات پر گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں بھی گناہوں سے
بچنا نہایت ضروری ہے کہ جس طرح مکہ میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکیوں کے برابر
اور مدینہ منورہ میں ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے اس قدر یہاں گناہ کرنے
پر سزا بھی بلکہ گناہ کے ارادے پر بھی گرفت ہے۔
3۔ بیماری پر صبر: حرمین
طیبین میں تبدیلی ماحول کے سبب طبیعت کچھ ناساز سی ہو جائے تو بیماری پر صبر کر کے
اجر حاصل کیا جائے کیونکہ یہاں بیماری کی بھی بہت فضیلت ہے، چنانچہ حضرت سعید بن جبیر
رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص مکہ میں بیمار ہو جائے جو عمل وہ پہلے
کر رہا تھا بیماری کی وجہ سے نہ کر سکا تو اس سے ان کا اجر ملے گا اگر مسافر ہو تو
اسے دگنا اجر ملے گا۔ (اخبار مکہ، 2/311)
4۔ جانوروں کو تکلیف دینے سے
بچنا: انسانوں
کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی ایذا دینے سے بچا جائے۔ مکہ معظمہ کے ارد گرد کئی کوس
تک حرم کا جنگل ہے، ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں، ان حدوں کے اندر تر گھاس اکھیڑنا،
خودرو پیڑ کاٹنا، وہاں کے وحشی جانور کو تکلیف دینا حرام ہے۔ (بہار شریعت، 1/1085)
5۔ شکار سے ممانعت: حرم
مکہ جس طرح انسانوں کے لیے امن والا ہے اسی طرح جانوروں کے لیے بھی امن والا ہے اور
اسی وجہ سے حرم مکہ میں شکار کرنے کی ممانعت ہے۔ تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ حرم کو اس
لیے حرم کہا جاتا ہے اس میں قتل شکار حرام و ممنوع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 34)