اللہ تعالی کا مقدس گھر مکہ پاک ہے جس کی بہت زیادہ
تعظیم و توقیر کی جاتی ہے ہر شخص پر اس کی تعظیم کرنا اور اس کے حقوق ادا کرنا لازم
ہے اسی طرح مکہ مکرمہ سے تقریبا 320 کلومیٹر کے فاصلے پر مدینہ منورہ ہے جہاں مکہ مکرمہ
سے ہجرت فرما کر حضور پاک ﷺ تشریف لائے مدینہ منورہ کے بھی حقوق ہے آئیے ان دونوں حرمین
طیبین کے حقوق سنتی ہیں:
قرآن میں ہے: لَاۤ
اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (پ 30، البلد: 1، 2) ترجمہ: اے پیارے
حبیب! مجھے اس شہر کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
اس آیت مبارکہ میں شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے احادیث
مبارکہ کی روشنی میں حرمین طیبین کے حقوق:
درخت نہ کاٹنا: حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور سوائے
تلاش کرنے والے کے وہاں کی گری چیز نہ اٹھائے۔ (مراۃ المناجیح، 2 /235)
ادب کرنا: مکہ معظمہ میں
جنگلی کبوتر بکثرت ہیں ہر مکان میں رہتے ہیں خبردار ہرگز ہرگز نہ انہیں اڑائے نہ ڈرائیں
نہ کوئی ا یذا دے بس ادھر ادھر کے لوگ جو مکہ میں بسیں کبوتروں کا ادب نہیں کرتے ان
کی ریس نہ لگائیں کہ وہاں کے جانور کا ادب ہے۔ (بہار شریعت، 1/1086)
حرم کی گرمی پر صبر کرنا: مکہ
مکرمہ میں گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن
وہاں کی گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو
شخص دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار
مکہ، 2/311)
حرمین طیبین میں دجال داخل نہیں ہوگا حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا: مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوگا۔(مسلم، ص 716، حدیث: 1379)
نہ نفل قبول نہ فرض: رسول
ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اسےخوف میں
مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اس کا نہ فرض
قبول کیا جائے نہ نفل۔ (المعجم الاوسط، 2/379، حدیث: حدیث: 3589)
اس کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے بہت سے حقوق و فضائل
ہیں مثلا وہاں کے لوگوں سے اچھے طریقے سے پیش آنا وہاں کے تبرکات کی بے ادبی نہ کرنا
وغیرہ۔