حرم مکہ اور حرم مدینہ کی حدود: مکہ
معظمہ کے ارد گرد کئی کوس تک حرم کا جنگل ہے،ہر طرف اس کی حدیں بنی ہوئی ہیں۔ حرم مدینہ
شہر مدینہ کے اندر ہی ہے۔ بخاری شریف میں ہے: مدینہ منورہ عیر پہاڑ سے ثور پہاڑ تک
حرم ہے۔ (بخاری، 4/323، حدیث: 6755)
حرم مکہ کے حقوق:
(1)حرم مکہ کی تعظیم: نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے لوگ (تب تک) ہمیشہ بھلائی پر ہوں گے جب تک وہ
مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے اور جب وہ اس کے حق کو ضائع کر دیں گے تو ہلاک
ہو جائیں گے۔ (ابن ماجہ، 3/519، حدیث:3110)
(2) حرم مکہ کی عزت و حرمت کی تعظیم: وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ
رَبِّهٖؕ-
(پ17، الحج:30) ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کےلیے
اس کے رب کے یہاں بھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حرمت والی چیزوں کے بارے میں مفسرین
کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان سے وہ مقامات مراد ہیں جہاں حج کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں
جیسے بیت حرام، مشعر حرام، بلد حرام اور مسجد حرام وغیرہ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ
ہے کہ ان کے حقوق اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی جائے۔ (صراط الجنان، 6/434)
(3)درخت کاٹنا: حرم مکہ میں درخت
کاٹنا ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)
حرم مدینہ کے حقوق:
(1)عیب جوئی نہ کرنا: مدینہ
منورہ کی ہر چیز عمدہ و اعلٰی ہے اس میں کسی عیب ونقص کا شبہ تک نہیں، اگر بالفرض طبعی
طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کے بجائے اپنی آنکھوں کا دھوکا و عقل
کی کمی سمجھے۔
(2) یثرب کہنے کی ممانعت: مدینہ
منورہ کو یثرب کہنا جائز نھیں (یثرب کا مطلب بیماریوں کا گھر ہے)کیونکہ یہ لفظ اس شہر
مقدس کی شان کے لائق نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے مدینہ کو یثرب کہا اسے چاہیئے کہ
وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں استغفار کرے کیونکہ مدینہ طابہ ہے، طابہ ہے۔ (بخاری، 1/616،
حدیث: 1867)
(3) آواز پست رکھنا: جس
طرح حضور ﷺ کی ظاہری حیات میں ان کے سامنے آواز پست رکھنے کا حکم تھا اسی طرح اب بھی
کوئی مدینہ منورہ جائے تو اپنی آواز پست رکھے کیونکہ وہاں آواز اونچی کرنا ساری زندگی
کے اعمال اکارت کردیتی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ
لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،
الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی
نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے
بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبرنہ ہو۔