ہمارے پیارے رب عزوجل نے اپنے محبوب کی پیروی کا حکم ارشاد فرمایا اور پیروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی برکت سے ہی ہوسکتی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ کنزالایمان :بے شک تمہیں رسول کی پیروی بہتر ہے۔(سورہ احزاب 21)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کے متعلق لکھتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کامیاب زندگی وہی ہے جو ان کے نقش قدم پر ہو، ہمارا جینا مرنا سونا جاگنا سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے قدم پر ہو، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں پر عمل پیرا ہو تے ہوے زندگی بسر کرنی چاہیےصحابہ کرام ایسی مبارک ہستیاں تھیں جن کی ہر ہر ادا سنت مصطفی کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی ہر مال میں سنتوں پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے تمام تر معاملات میں حضور کی سنتوں کو اپناتے تھے ۔ آئیے سنتے ہیں کہ صحابہ کرام کس طرح سنتوں پر عمل پیرا ہوتے تھے ۔

حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''ایک خَیّاط (درزی۔ Tailor) نے سرکار نامدار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مَدعُو کیا تو میں بھی ساتھ چلاگیا، اُس نے جَوشریف کی روٹی اورشوربہ پیش کیا جس میں کدُّوشریف اورخُشک گوشت کی بوٹیاں تھیں۔ میں نے دیکھاکہ سرکارِدوعالم،نورِ مُجسَّم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیالے کے کِناروں سے کَدّو شریف ڈھونڈکر تَناوُل فرما رہے تھے۔ اس دِن کے بعد میں ہمیشہ کدّو شریف پسند کرنے لگا۔ (صَحِیْح مسلِم ص۱۱۲۹حدیث ۲۰۴۱ دارابن حزم بیروت )

ماشاءاللہ! بہت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ کے اپنے محبوب کی ادا کو اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے ہر ہر وقت سنت پر عمل کی کوشش میں لگے رہتے۔

حضرت حضرت علی بن حصیر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت رھبہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا "ما فعل اللہ بک" فرمایا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرماحضرت رھبة رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اللہ نے میری مغفرت فرما دی، میں نے پوچھا کس بات سے ؟فرمایا سنت پر عمل کی برکت سے ۔

سنا آپ نے سنا سنت مصطفی پر عمل کی برکت سے مغفرت بھی ہو جاتی ہے حقیقی عشقِ رسول بھی نصیب ہوتا ہےاللہ کریم کی نعمتیں چھما چھم برستی ہیں اور رب کی رضا نصیب ہوتی ہے اور دونوں جہانوں کی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔

حضرت نافع سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر جب نبینا ہو گئے کہا کہ آپ مجھے بازار لے چلو میں نے ہاتھ پکڑا اور باہر لے کر آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس لے چلو میں نے عرض کی حضور کام تو آپ نے کچھ بھی نہ کیا؟ فرمایا آئے ہوئے چند لوگوں کے ساتھ سلام و جواب ہوا ہے ۔

فرمایا: بس میں یہی کام کے لئے آیا تھا تاکہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ سلام اور اس کا جواب دینے کی سنت پر عمل ہو صحابہ کرام کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عملی تعلق تھا وہ اب وہ ایسا صاف و شفاآئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے اس کی روشنی میں اپنے اعمال و کردار اصلاح کرتے تھے اور سنت کے ذریعے اپنے لوگوں کو جگاتے تھے

اللہ کریم ہمیں پیارے آقا کی سنتوں سے محبت اور ان ان پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم