ہر نبی اور رسول کے جان نثاروں اور حواریوں
نے اپنی محبت وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی
کسر نہ چھوڑی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسولِ محترم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے
سرشار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ سے محبت کا اظہار کیا اس کی
مثال نہیں ملتی ۔
جس سے محبت
ہوتی ہے اس کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے، اس کی رفتار سے محبت، اس کی گفتار سے محبت
،اس کے کردار سے محبت، غرض یہ کہ اس کی ہر شے سے محبت ہوتی ہے۔
حضرت عبیدہ بن جریج رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے دیکھا آپ بیل کے دباغت
کیے ہوئے چمڑے کابے بال جوتا پہنتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی جوتا پہنتے تھے جس میں بال
نہ ہو ں اسی لیے میں بھی ایسا جوتا پہننا پسند کرتا ہوں۔
(صحیح بخاری، کتاب
الوضوء، باب غسل الرجلین،حدیث: 166،ج1،ص40)
حضرت
انس رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
ایک درزی نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
کھانے کی دعوت کی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، جو کی روٹی اور شوربہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے لایا گیا جس میں کدواور خشک
کیاہوانمکین گوشت تھا کھانے کے دوران میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کدو کی خاشیں(ٹکڑے ) تلاش کرکے تناول فرما
رہے ہیں اسی لیے اس دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔
(صحیح بخاری، کتاب
الاطعمہ، باب الدباء،حدیث: 5433،ج3،ص534)
حضرت امام ابو یوسف( شاگرد امام اعظم) کے سامنے
اس روایت کو ذکر کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھا اس مجلس میں بیٹھے ایک آدمی نے کہا
لیکن مجھے نہیں پسند تو حضرت امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہ نےاپنی تلوار کھینچی اور فرمایا تجدید ایمان
کرو ورنہ تجھے قتل کر دیا جائے گا۔
(الشفاء للقاضی،
باب الثانی ،فصل فی علامۃ محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج2،ص51)
اسی طرح کتب احادیث صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سنت پر عمل کے جذبہ سے مالا مال ہیں اور
یہ سب حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی پسند کو پسند
اس لئے کرتے تھے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر پورے طور پر دل میں جاگزیں ہو تو اتباع رسول کا
ظہور ناگزیرہوجاتا ہے۔احکام الہی کی تعمیل اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عاشق کی رگ و ریت میں سما جاتی ہے
اگر امت محمدیہ بھی ا سے اختیار کر لے تو ان کی معاشرت سنور جائے اور آخرت نکھر
جائے اور بے مایہ انسان میں ایسی قوت پیدا ہوجائے جس سے کئی جوہر کھل جائیں۔