محبت کا ایک اصول ہے کہ آدمی اگر اپنی محبت میں کامل اور سچا ہو تو وہ محبت اسے محبوب کی اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، اور نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم سے محبت و اطاعت شریعت کو مطلوب بھی ہے، اور یہ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہے اور اللہ عزوجل سے محبت کا اظہار بھی کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے ۔قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

شرطِ ایمان مصطفی سے پیار ہے، پیار پیروی ہے اور پیروی دشوار ہے... ایک مقام پر مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اطاعت اور دین سے محبت کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئےارشاد فرماتے ہیں: لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لماجئت بہ ،تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک اسکی نفسانی خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں لایا ہوں ۔ (مشکوة المصابیح باب الاعتصام بالکتاب والسنة )

صحابہ کرام علییھم الرضوان نبی پاک کے سچے جانثار اور آقا علیہ الصلوة والسلام کے مکمل تابعدار تھے، انھوں نے نہ صرف اپنے افعال کو حضور کے افعال کی اتباع میں کیا بلکہ اپنی طبیعتوں کو ہی آقا کریم کے طریقے کے مطابق ڈھال لیا، اور اپنی خواہشات تک کو مرضی محبوب میں فنا کردیا تھا۔

صحابہ کرام کے ادب رسول کو دیکھا جائے تو وہ کمال نظر آتا ہے انھوں نے اپنی آوازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز سے پست کر دیا، اپنی نظریں جھکا کے رکھتے، حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے جب آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پچھنے لگوائے تو خون مصطفی کو زمین پر نہ گرنے دیا، أم المؤمنین حضرت ام احبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد جب تک ایمان نہیں لائے تب تک انکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بستر مبارک پر نہیں بیٹھنے دیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے نماز پڑھنے کو بے ادبی سمجھتے تھے، حضور کے قرابت داروں کا خیال رکھتے تھے۔

اور اگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعمیل حکم مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے، صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کوشش ہوتی کہ انکا ایک ایک عمل تمنائے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم ،خدمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہو، لہذا اس سلسلہ میں ان بے مثال ہستیوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں

جیسے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف آ رہے تھے، آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے سامنے کھڑے کسی آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اجلسوہ، اسکو بٹھادو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم اگرچہ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں تھا مگر جونہی انکے کان میں یہ آواز پڑی مسجد کے باہر ہی صحابہ کے راستے میں بیٹھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے تو انکے جذبہ اطاعت کو دیکھتے ہوئے دعا دی : زادک اللہ حرصا علی طواعتیہ اللہ وطواعتیہ رسولہاللہ کریم تمہاری اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری میں مزید اضافہ فرمائے ۔ (الاصابہ، ابن حجر، 66/4)

شراب کی حرمت سے پہلے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان دنوں فضیح نامی شراب کا بہت رواج تھا، پھر شراب کی حرمت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک منادی کو اس بات کا اعلان کرنے کا حکم ہوا کہ شراب حرام ہوگئ ،

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابو طلحہ نے کہا باہر جاکر اس شراب کو بہا دو، چنانچہ میں نے نکل کر شراب بہا دی، پس اعلان ہونے کے بعد شراب مدینے کی گلیوں میں بہنے لگی،( حب رسول اور صحابہ کرام، مظا ہر محبت، ص 199)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ کی طرف تشریف لے گئے پھر آپ نے دو رکعت نماز عید پڑھی، آپ نے نماز عید سے پہلے نہ کوئی نفل نماز پڑھی نہ فوراً بعد ، پھر آپ خواتین کی طرف تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپ نے انھیں وعظ و نصیحت فرمائی، اور پھر انھیں حکم دیا کہ راہ خدا میں کچھ حسب توفیق صدقہ دیں ۔زبان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے سننے کی دیر تھی کہ خواتین اپنے کنگن اور بالیاں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔

( بخاری شریف کتاب الزکوة)

ایک مرتبہ نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کبھی کسی سے سوال نہ کرنا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اسقدر پاس کیا کہ عمر بھر کسی سے دست سوال دراز نہ کیا حتی کہ اگر سواری پر بیٹھے چابک ہاتھ سے گر جاتا تو خود اتر کر اٹھا لیتے، مگر کسی کو پکڑنے کے لئے نہ کہتے۔( مسند احمد بن حنبل . 277/5)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی گھما رہے تھے، اس پر ان سے پوچھا گیا کہ بلا ضرورت یہ مشقت کیوں اٹھائی، تو انھوں نے فرمایا میں خود اسکی وجہ نہیں جانتا سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح اونٹنی گھماتے دیکھا تھا، لہذا میں نے بھی یہ کام کیا۔( قاضی عیاض شفاء شریف 15/2)

یقیناً چشم فلک اور تاریخ انسانیت نے ایسا اتباع سنت کا جذبہ کہیں نہ دیکھا ہوگا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف رخ پھیرا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اپنا منہ نماز کی حالت میں ہی پھیر دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں جوتے اتارے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی اتار دیے۔(

( ابو داؤد کتاب الصلوة)

آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انگوٹھی اتاری تو صحابہ کرام نے بھی اتار دی، اتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں کسی صحابی نے بھی کسر نہیں چھوڑی مگر جو جذبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ملا قابل رشک ہے کہ انکے بارے میں معروف تابعی انکے آزاد کردہ غلام حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لو رأیت ابن عمر یتبع آثار رسول اللہ لقلت ھذا مجنون ،اگر تم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اتباع سنت کو دیکھ لیتے تو کہہ اٹھتے کہ یہ مجنون ہے۔(حاکم للمستدرک، باب معرفة اصحابہ،561/3)

اللہ کریم ہمیں اصحاب رسول کی کامل اتباع کا صدقہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم