یقینا کامیابی و کامرانی یہی ہے کہ بندہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے کیونکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا وظیفہ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خاص طور پر جوعطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھام لیا جائے ۔

چنانچہ حضور علیہ السَّلام نےفرمایا: میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو۔ (ابو داود ،کتاب السنۃ، باب فی لزوم السنۃ، حدیث: 4607)

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جابجا اپنی محبت کے حصول کے لیے اپنے حبیب کی اتباع کو لازمی قرار دیا : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران آیت: 31 )

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اتباع سنت بھی کرتے تھے اور کسی سنت کو ترک نہیں کرتے تھے

صحابہ کرام کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کا جذبہ کیسا ہوا کرتا تھا اس بارے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائی

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا :خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا ۔(مسلم شریف ،کتاب الحج ،باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف ،ص 478 ج 281)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اسکی حکمت تو نہیں جانتا مگر اس جگہ میں نے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا اسی لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔(شفا شریف ص 15 الجزء الثانی )

حافظ ابو شیخ عبد اللہ بن محمد اصبہانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ نقل فرمائے کہ: فانا احب القرع لحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایاہ یعنی میرا تجھ سے محبت کے تعلق کی فقط یہی وجہ ہے کہ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے محبت فرماتے تھے ۔اخلاق النبی وآدابہ ذکر اکلہ للقرع ومحبتہ لہ صلی اللہ علیہ وسلم ص 125 حدیث :631 دار الکتب العربی )

ان واقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے اور انھیں سنت پر عمل کرنے کا کس قدر جذبہ ہوا کرتا تھا ۔

کاش کہ ہم بھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کرنے والے بن جائیں پانی پئیں تو سنت کے مطابق ،کھانا کھائیں تو سنت کے مطابق ،عمامہ شریف سجائیں، لباس تبدیل کریں ،سواری پر سوار ہو تو سنت کے مطابق الغرض ہر ہر کام میں سنت پر عمل کرنے والے بن جائیں ۔

اللہ رب العزت ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سنت مصطفی سے محبت کا ایک حصہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حفاظت حدیث کی ذمہ داری سے صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہوگئے کے انکو محفو ظ کرکے آرام کی نیند سوجاتے ، ان کیلئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کیلئے نہیں تھی جن کو یاد کرکے بطور تبر ک قلوب واذہان میں محفوظ کرلیا جاتا ، بلکہ قرآنی تعلیمات کیطرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائم تھا ۔

میں کسی ایک فرد کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ شمع نبوت کے پروانوں کا عموماًیہ ہی حال تھا، آج کی طرح دنیا ان پر غالب اور مسلط نہیں تھی بلکہ وہ ان تمام عوائق وموانع سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف اپنے محبوب کی یاد کو دل میں بسائے سفروحضر میں اپنی دنیا کو انہیں کے ذکر سےآباد رکھتے تھے ،ان کا عشق ِرسول ہر ارشادکی تعمیل سے عبارت تھا ۔

عبادات میں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر ان کیلئے کوئی چارۂ کار ہی نہ تھا ، لیکن انکی اتباع ہر اس کام میں مضمر ہوتی جو انکے رسول کی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا ۔

کتب احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث پاک بیان کرتے وقت جس خاص ہیئت ووضع کو اختیار فرمایا ہوتاتھا تو راوی بھی اسی ادا سے حدیث روایت کرتا ۔مثلا احادیث مسلسلہ میں وہ احادیث جن کے راوی بوقت روایت مصافحہ کرتے ، تبسم فرماتے یا کسی دوسری ہیئت کا اظہار کرتے جو حضورسے ثابت ہوتی ۔مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اداوؤں کو اپنانا اور ان پر کاربند رہنا انکی زندگی کاجزو لاینفک بن چکا تھا، صحابہ کرام میں سنت رسول کی پیروی کا جذبہ اس حدتک موجود تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور نے کیا تھا صحابہ کرام بھی اس مقام پر وہی کام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں مشہور ہے کہ:

جن جن مقامات پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حالت سفر وحضر میں نماز یں پڑھیں تھیں حضرت عبداللہ بن عمر ان مقامات کوتلاش کرکے نمازیں پڑھتے ،اور جہاں حضورنے اپنی سواری کا رخ پھیرا ہوتا وہاں قصدا ًآپ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

اگر کسی وقت یہ حضور کی خدمت میں حاضر نہ رہتے تو ان اقوال وافعال کے بارے میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پوچھتے اوراس پر عمل پیرارہتے ۔

امام مالک سے ایک دن انکے شاگرد یحی بن یحى نے پوچھا: کیا آپ نے مشائخ کرام کویہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی پیروی کی اس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع میں کوئی کوتاہی نہیں کی؟ بولے : ہاں۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نمونے چلتے پھرتے صحابہ کرام میں دیکھے جاتے اوران کو دیکھ کر صحابہ کرام حضور کی یاد تازہ کرتے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں عبدالرحمن بن زید نخعی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا:

مجھے ایسے شخص کی نشاندھی کیجئے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے طور طریقوں میں زیادہ قریب ہو ،تاکہ میں ان سے ملاقات کرکے علم حاصل کروں اور احادیث کی سماعت کروں۔

فرمایا: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے چال ڈھال میں اوروضع قطع میں

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ قریب تھے ۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا اوران کا دستور عام یہ ہی تھا کہ زندگی کے ہرشعبہ میں حضور کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ۔انہوں نے اپنی عادات ، اپنے اخلاق اوراپنے طرز حیات کو حضور سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگنے کیلئے ہرممکن کوشش کی ،وہ صرف خود ہی اپنی زندگیوں کو حضور کے اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نمونۂ عمل کواپنا نے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔

امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب زخمی ہوئے تو آپ سے عرض کیاگیا کہ آپ کسی کواپنا خلیفہ نامزد فرمادیں ،توآپ نے فرمایا:اگر میں اس معاملہ کو ویسے ہی چھوڑدوں ،تو ایسا انہوں نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اوراگر خلیفہ مقرر کردوں تویہ بھی اس کی پیروی ہوگی جو مجھ سے بہتر ہے یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ پر مسلمانوں کی قوت وشوکت ظاہر کرنے کیلئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے کاندھوں کو کھلا رکھیں اور طواف میں رمل کریں ۔جب اللہ تعالی نے اسلام کو قوت وشوکت عطافرمائی تو کند ھے کھولنے اوررمل کرنے کا سبب تو ختم ہوگیا لیکن حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

اب رمل اور کندھے کھولنے کی ضرورت کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطافرمادیا ہے اورکفر اور اہل کفر کو ختم کردیاہے ۔لیکن اسکے باوجود ہم اس کام کو ترک نہیں کرینگے جو ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد میں کیا کرتے تھے۔


سرورِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرتِ مُبارَکہ اور سنّتِ مُقَدَّسہ کی پَیروی ہر مسلمان پر واجِب و لازِم ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:

ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤاللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(پ 3،سورہ آل عمران: ۳۱)

اسی لیے آسمانِ اُمَّت کے چمکتے ہوئے سِتارے، ہِدَایَت کے چاند تارے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول کے پیارے صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہم و صَحابیات طیباترَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر سنّتِ کریمہ کی پَیروی کو لازِم و ضَروری جانتے اور بال برابر بھی کسی مُعَامَلہ میں اپنے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں سے اِنحراف یا تَرْک گوارا نہیں کرتے تھے۔صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم جس طوع و رضاکے ساتھ رسول ا للہ عزو جل وصلی ا للہ علیہ و سلم کی ا طا عت کرتے تھے ا س کے متعلق احادیث میں نہایت کثرت سےو ا قعات مذکور ہیں۔چند و ا قعات سے ا س کا ا ندا زہ ہوسکے گا۔

امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پراتباع کی ہے۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔

(بخاری جلد1 ،ص۱۸۶ باب موت یوم الاثنین)

ر سول ا للہ عزو جل و صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم نے شوہرکے علاو ہ د یگر ا عزہ کے سوگ کے لئےتین د ن مقررفر مائے تھے، صحابیات نے ا سکی ا س شدت سے پا بندی کی جب حضرت زینب بنت جحش ر ضی ا للہ تعالیٰ عنہاکےبھائی کا ا نتقال ہوگیاتو غالباً چوتھےدن ا نھوں نےخوشبولگائی، اور کہا کہ مجھ کو خوشبو کی ضرورت نہ تھی لیکن میں نےآپ صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم سے کسی مسلمان عورت کو شوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ،اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی۔

)سنن ابی داود،کتاب الطلاق ،باب احداد المتوفی عنہا زوجہا،الحدیث:۲۲۹۹ ،ج:۲ص۴۲۲ )

یہ تھے سچے عاشقوں کے انداز کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہر ہر سنت کو دل و جان سےاپناتے تھے۔آج ہماری اکثریت سنتوں سے کوسوں دورہے اور اگربعض لوگوں کو مدنی ماحول کی برکت سے سنتیں اپنانے کا جذبہ ملتا بھی ہے توعموماً نفس پر گراں گزرنے والی سنتیں، جیسے کم اور سادہ کھانا، سادہ لباس پہننا وغیرہ سے وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اے کاش! ہمیں پیارے آقاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں سے والہانہ محبت ہوجائے اور بس یہی زباں پرجاری ہوجائے:

شہا ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں

تری سنّتیں سکھانا مدنی مدینے والے

تری سنتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر

چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر ہماری جان قربان! سنت پر عمل کرنے کا بہترین جذبہ رکھتے تھے صحابہ کا سنت پر عمل کا بے مثال جذبہ ہے قربان جاؤں کہ صحابہ نے نماز پڑھی تو نماز والے کو دیکھا، درود پڑھا تو درود والے کو دیکھا، قرآن پڑھا تو قرآن والے کو دیکھا ،دعا مانگی تو والضحی چہرے کو دیکھا ۔

کمال ِ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا

جمالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے قرارِصحابہ

خلوت ہو یا جلوت، جنگ ہو یا امن، دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا برسات، ہر ہر ساعت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرجان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے۔

غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشورہ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام مہاجرین نے دین اسلام کے لئے تمام جان و مال قربان کرنے کا اعلان کیا ۔

انصار مدینہ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور عرض کیا : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے دائیں لڑیں گے، بائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے ، پیچھے لڑیں گے،( یعنی ہم آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دیں گے) ۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اپنا مال راہ خدا میں جہاد کے لیے صدقہ کرو۔

اس فرمان عالی شان کی تعمیل میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے حسب توفیق اپنا مال جہاد کے لیے تصدق کیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے دس ہزار مجاہدین کا سازوسامان دس ہزاردینار، نو سو اونٹ اور سو گھوڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے پیش کیے ۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :کہ میرے پاس بھی مال تھا میں نے سوچا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ ایسے معاملات میں مجھ سے سبقت لے جاتے ہیں اس مرتبہ میں اپنا مال پیش کرکے سبقت لے جاؤں گا چنانچہ وہ گھر گئے اور گھر کا سارا مال اکٹھا کرکے اس کے دو حصے کیے ، ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئےلے آئے اور دوسرا حصہ گھر والوں کے لئے رکھا ہے ۔

آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے عمر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو عرض کی آقا! آدھا مال گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں عاشق اکبر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا؟ اے ابوبکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کر آئے ہو تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! گھر کا سارا مال لے آیا ہوں، گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں ۔

یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی انہیں حیران رہ گئے اور فرمانے لگے کہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

کیا پیش کروں جاناں کیا چیز ہماری ہے

یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اتار کر پھینک دیا - پھر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص آگ کی چنگاری لے کر اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد ان صحابی سے کہا گیا کہ اپنی انگوٹھی اٹھا لیجئے اس سے کوئی اور نفع اٹھا لیں تو وہ فرمانے لگے اللہ کی قسم! میں اسے ہرگز نہ لوں گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا۔

غرض یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنی زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کو مقدم رکھتے۔

اے کاش! اللہ عزوجل ان عظیم ہستیوں کے سنت پر عمل کرنے کے جذبے کے صدقے ہمیں بھی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے - اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پیروی سنت رسول کرتے ہوئے عشقِ رسول کے جو گلشن مہکائے کہ ان کی خوشبو آج تک باقی ہے ۔

سنت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر ہے ۔

صحابہ کرام کی شان تو بلند ہے ہی ساتھ ہی ان کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ بھی قابل ذکر ہے ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے اقوال و افعال سے بہت محبت تھی وہ ہر حال میں سنت پر عمل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہر ایک صحابی رسول کا سنت پر عمل کرنے کا جذبہ اپنی مثال آپ ہے ۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسجد الحرام میں تشریف فرما تھے ان کی نظر جب حجر اسود پر پڑی تو فرمایا کہ اے حجر اسود! تو ایک ایسا پتھر ہے جوخود سے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا تومیں تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا اس کہ بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نےاسے بوسہ دیا۔(صیح بُخاری ٣/١٦٧) (محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے سبب اس کو بوسہ دیا ) ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرائے ان سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہاں بیٹھ کر وضو فرمایا اور اس کے بعد مسکرائے اسی لیے میں نےبھی ایسے کیا۔(مسند احمد، ص 415،ملخصاً)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو چھری لانے کا کہا اور جو حصہ انگلیوں کے پوروں سے زیادہ تھا اس کو کاٹ ڈالا تو آستینیں چھوٹی بڑی ہو گئیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی نے عرض کی :ابا جان! اس کو قینچی سے برابر کر دوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی رہنے دو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی دیکھا ہے (اللہ والوں کی باتیں، ج1، ص313)

بے شک صحابہ کرام کا جذبہ سنت عمل بے مثال ہے اللہ کریم ان کے صدقے ہمیں بھی سنت پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


سنت کا لغوی معنی طریقہ اور راستہ  کے ہیں، علماء اصول کے ہاں ہاں سنت کا اطلاق ہر اُس قول یا تقریر پر کیا جاتا ہےجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےطریقوں یعنی سنت سے ظاہر و باطن کو سجایا جائے! اس کی عملی تصویر ہمارے صحابہ کرام کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

اللہ پاک نے قرآن ِپاک میں ارشاد فرمایا:ترجمہ: "اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

دوران طعام حضرت حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا، آپ رضی اللہ عنہ نے سنت کے مطابق اٹھا کر صاف کیا اور تناول فرما لیا، ایک خادم نے عرض کی کہ آپ ایسا نہ کیجئے، عجمیوں کے ہاں یہ طریقہ معیوب سمجھا جاتا ہے، وہ ایسا کرنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا کہا؟ میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں ؟

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردِ خاص حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے، ایک دن مجھے فرماتے کہ مجھے بازار لے چلو، میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار میں لے آیا، تھوڑی دُور تک چلے اور فرمایا: کہ مجھے واپس لے چلو، میں نے عرض کی حضرت! آپ نے کوئی کام تو کیا نہیں، آپ نے فرمایا آتے ہوئے چند دوستوں سے سلام جواب ہوا، میں اسی کام کے لئے آیا تھا، کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام جواب دینے کی سنت پر عمل ہوجائے جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے ہوئے عمل نہیں ہورہا تھا۔

یہ صحابہ کرام کا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا جذبہ تھا، وہ اس صاف شفاف آئینے میں اپنے چہرے دیکھتے تھے اور اپنے کردار اور اعمال کی اصلاح فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام کا صدقہ عطا فرمائے اور ہم سنتوں کو عام کرنے والے بن جائیں والے بن جائیں۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم امتِ مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ پاک نے ان کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،اور اعانت کے لئے منتخب فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پرلبیک فرماتے، عمل کرتے، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی عظیم نشانی ہے کیوں کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر کام میں اطاعت کی جاتی ہے۔

اللہ کریم نے بھی یہی حکم فرمایا:" اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"

" تم فرما دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کومعاف فرما دے گا۔"

انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ تعظیم و تو قیر کے لائق ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ان مبارک ہستیوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کیا۔

آج کے دور میں ان سب قربانیوں کا تصور بھی بہت مشکل ہے، لیکن صحابہ کرام کو یہ سعادت حاصل تھی رضی اللہ عنہم کہ وہ آقا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ زیبا کی زیارت کرتے، دنیا جہاں کی کوئی نعمت بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتی وہ آپ کی صحبتِ فیض سے ہر وقت مستفیض ہوتے رہےاور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان پہ عمل کیا اور آپ کی پسند کو اپنی پسند رکھا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہکو کسی نے دیکھا کہ وہ شوربے میں کدو شریف نکال کر کھا رہے ہیں، کہا گیا: کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟( اس پر فرمایا) کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔

طبیعت کا اختلاف یہ ایک فطرتی عمل ہے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میں کو ترک کرتے ہوئے حضور رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے خود کو آپ کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا، اس چیز کا انتظار نہیں کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے اور نہ کبھی سوال کیا، علاوہ لبّیک کہنے کے کچھ نہ بولے، گویا کہ سنت سے محبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وصف ہے جو ہر مسلمان ، ان سے محبت رکھنے والے میں ہونا چاہیے ۔

صحابی رسول حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لمحہ پیشِ نظر رکھتے تھے اور بات بات میں فرماتے تھے:میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ لیا ، میں نے اپنے دوست صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتےسنا۔"ان کی خدمت میں کسی نے دو چادریں پیش کیں، انہوں نے ایک کا ازار بنایا اور ایک کی چھوٹی کملی اوڑھ لی اور دوسری غلام کو دے دی، گھر سے نکلے تو لوگوں نے کہا: آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو بہتر ہوتا، فرمایا: یہ صحیح ہے لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو وہی تم اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔

اسی طرح حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہ وہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو اپنا دستورُ العمل رکھتے،ایک مرتبہ چند اعراب نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے بعض صدقہ وُصول کرنے والے ہم پر ظلم کرتے ہیں، فرمایا: "کہ ان کو راضی رکھو، اعراب نے کہا: اگر وہ ظلم کریں، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی رکھو ، اس ارشاد کے بعد سے کسی صدقہ وصول کرنے والے کو جریر رضی اللہ عنہ نے ناخوش نہیں کیا ۔

( شرح سنن ابن ماجہ ، ج اول)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تکالیف برداشت کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو عام کرتے، اس پر عمل کرتے، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی عظیم علامت ہے، صحابہ کرام نے آپ کے ہر فرمان پر عمل کیا خواہ اِس کو ان کی عقل تسلیم کرے یا نہ کرے، جیسا کہ:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر ِاسود کو بوسہ دینے کے بعد فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع دیتا ہے ‏ نہ نقصان اور اگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ا س قول سے مراد یہ تھی کہ لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ء پر بر انگیختہ کیا جائے۔

کیوں کہ آپ کا بوسہ دینے کی وجہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع تھی، ہر مسلمان میں ایسا ہی اطاعت کا جذبہ ہونا چاہیے، عشقِ رسول میں اضافے کا نسخہ، اگرچہ ہر مسلمان کے دل میں فطری طور پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت موجودہوتی ہے لیکن کوشش کرکے اس محبت میں اضافہ کرنا بہت بڑی سعادت مندی ہے، اس میں اضافہ کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، صحابہ کرام کا سنت پر عمل کرنا اور آپ سے محبت کے واقعات کی معرفت حاصل کرنے سے ہوگا۔

اللہ کریم ہمیں دل و جان ، زبان و قلم سے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تعظیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور جنت میں ان کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنّتِ مقدّسہ کی پیروی ہر مسلمان کے لئے وجہِ اعزاز و اکرام ہے، اللہ کریم کا فرمان ہے:(تَرجَمۂ کنزُ الایمان:) اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ 3، اٰل عمران:31)

آسمانِ ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنّتِ کریمہ کی اتّباع کو اپنی زندگی کا لازمی حصّہ بنائے ہوئے تھے۔

حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس امر پر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر نہیں چھوڑتا، اگر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں سنّت سے مُنحرف ہو جاؤں گا۔

(بخاری،2/338،حدیث:3093)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع اور پیروی !

کیوں نہ ہو! صدّیقِ اکبر تھے

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بِن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے، اس لئے میرے واسطے آٹانہ چھانا جایا کرے ۔

( طبقات ابن سعد، 1/301)

مسلمان کو سلام کرنا بھی بڑی عظیم سنّت ہے اور صحابۂ کرام اس پر عمل کا بھی بڑا عظیم جذبہ رکھتے تھے چنانچہ حضرت سیِّدُنا طُفَیل بن ابی کَعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے پاس جاتا تو وہ مجھے ساتھ لے کربازارکی طرف چل پڑتے۔ جب ہم بازار پہنچ جاتے تو حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ رضی اللہ عنہ جس ردی فروش، دُکاندار اور مسکین یاکسی شخص کے پاس سے گزرتے تو سب کو سلام کرتے۔حضرت سیِّدُناطُفَیْل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (ایک دن جب بازارجانے لگے تو): ’’میں نے پوچھا: ’’آپ بازار جا کر کیا کریں گے؟وہاں نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں۔نہ سامان کے متعلق کچھ پوچھتے ہیں۔ نہ بھاؤ کرتے ہیں اورنہ بازارکی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔میری تو گزارش یہ ہے کہ یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں۔ ہم باتیں کریں گے۔فرمایا: ’’ہم صرف سلام کی غرض سے جاتے ہیں ۔ہم جس سے ملتے ہیں اُسے سلام کہتے ہیں۔“ (موطا امام مالک،2/444،حدیث:1844)

اللہ کریم ہمیں بھی صحابۂ کرام کےجذبۂ اتباعِ سُنّت سے حصّہ عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے مُحبّ اور اقوال و افعال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے تھے بے شک سُنت پر عمل ایمان کے کامل ہونے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب پانے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ وہ حضرات ہیں جن کا ایمان کامل ہی نہیں بلکہ اَکمل ہے اور ان سے زیادہ قُرب بھلا کس کو حاصل ہے، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا تو آئیے چند واقعات ملاحظہ فرمائیے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کی طرف نظر کر کے فرمایا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو ہرگز میں تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الجز ء الثانی(فصل ماورد عن السلف فی اتباعہ)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹنی کو ایک جگہ چکر دیا، اس بارے میں آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا، تو فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا ، پس میں نے بھی ایسا ہی کیا۔

(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الجز ء الثانی(فصل واماورد عن السلف فی اتباعہ)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک بار پانی منگوایا اور وُضو کیا پھر مسکرائے اور ساتھیوں سے فرمایا :کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کس چیز نے مجھے مُسکرایا؟اُنہوں نے عرض کی یا امیرالمومنین! آپ کس چیز کے سبب مسکرائے؟ تو فرمایا: ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ کے قریب وُضو فرمایا تھا پھر مسکرائے تھے اور اَصحاب سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ اَصحاب رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"بندہ جب پانی منگوائے پھر اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اسی طرح کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے اور سر کا مسح کرے تو سر کے اور قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے،( تو میں نے انہی کی ادا کو ادا کیا)۔(مسند عثمان بن عفان، ح415)

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی دعوت میں شریک ہو گیا، درزی نے آپ کے سامنے روٹی، کدو( لوکی) اور گوشت کا سالن رکھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے کدو تلاش کرکے تناول فرما رہے ہیں پس اُس دن کے بعد میں کدو کو بہت پسند کرتا ہوں۔(صحیح مسلم کتاب الاشربہ، باب جواز اکل المرق، ح 2041)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی عمل کرتا دیکھتے تو اس کی پیروی اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔

اللہ پاک ہمیں بھی سنتوں کا پابند بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کی اطاعت بھی کی جائے کیونکہ محبت اطاعت کروا تی ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی ہر ہر ادا سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تصویر نظر آتی ہے جن کی مبارک سیرت ہمیں یہ سکھا تی ہے کہ محبت کیسے کی جاتی ہے؟ اطاعت کیسے کی جاتی ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے زندگی کے ہر ہر قدم پر اتباع سنت کو اپنائے رکھا ۔

صحابہ کرام کےجذبہ اتباع سنت کا عالم تو یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: جس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے میں اس کوکئے بغیر نہیں چھوڑتا اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو مجھے ڈر ہے کہ میں سنت سے منحرف ہو جاؤں گا۔

(نسیم الریاض، فیما یجب علی الانام من حقوقہ، الباب الاول فی غرض الایمان )

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سنتوں پر عمل کے جذبے کا عالم یہ تھا کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا قصد انجام دیا اس کی پیروی کرنا بھی اپنے لیے باعث برکت سمجھتے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی کو ایک مکان کے گرد پھرا رہے ہیں پوچھا گیا ؟ تو فرمایا کہ میں نہیں جانتا مگر اتنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی کیا ہے

(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، القسم الثانی، الباب الاول فصل ما ورد عن السلف جلد 2 صفحہ 15)

حضرت حمران بن آبان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے آپ نےوضو کیا جب وضو کر کے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا :جس طرح میں نے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی وضو کیا تھا اور اس کے بعد مسکرائے تھے۔

(مسند امام احمد، مسند عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ، 134/1،الحدیث: 435)

وضو کر کے خنداں ہوئے شاہ عثمان

پھر کہا کیوں تبسم بھلا کر رہا ہوں؟؟

جواب ِسوالِ مخاطب دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

اللہ اللہ کیا جذبہ تھا اتباع سنت کا جبھی توبارگاہ رسالت سے ” اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم ، میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔“ کا خوبصورت تحفہ عطا ہوا (مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب 414 حدیث: 2018)

ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی

اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد کسی نے اس سے کہا کہ اپنی انگوٹھی اٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ حاصل کر اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں لے سکتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پھینک دیا تو میں اسے کیسے لے سکتا ہوں؟

(مشکوۃ، کتاب اللباس،باب الخاتم ،الفصل الاول ،الحدیث 4285)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری تمنا:

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے قبل ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ آخری تمنا تھی کہ ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کے آخری تمام معاملات بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک سنتوں کے مطابق ادا کیے جائیں آپ کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نصیب ہو جائے ۔(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب موت یوم الاثنین، الحدیث 387،ج1، ص 468)


ہم جس سے محبت کرتے ہیں ان کی ہر ادا کو ادا کرتے ہیں ان سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کے ہر حکم کی پیروی کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان عشق رسول سے سرشار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتے ان کی کسی ادا کو دیکھتے تو فوراً اسے خود ادا کرنے کی کوشش کرتے صحابہ کرام اور ان کے اتباعِ رسول کے کچھ واقعات پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے گزرا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی انداز سنتے یا دیکھتے تو فوراً اس پر عمل کرتے تھے ۔

بڑھی ہوئی آستینوں کو چھری سے کاٹ ڈالا:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے نئی قمیض پہنی تو چھری منگوائی اور فرمایا اے بیٹے! اس کی لمبی آستینوں کو سرے سے پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری انگلیاں ہیں ان کے آگے سے کپڑا کاٹ دو۔

سیدناعبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس سے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں بلکہ اوپر نیچے سے کٹا میں نے عرض کیا بابا جان! اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا بیٹا اسے ایسے ہی رہنے دو کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا تھا اس لیے میں نے بھی چھری سے آستینیں کاٹ دیں ۔

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی آستین کاٹنے کے بعد کُرتے کی یہ حالت تھی کہ بعض دھاگے باہر نکل گئے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں کو چوم رہے تھے۔

(مستدرک حاکم، کتاب اللباس ج5،ص275)

سبحان اللہ! حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا عشق رسول مرحبا!!! کہ اتباع رسول میں آپ رضی اللہ عنہ نے نئے لباس کی آستینیں کاٹ دیں اور غلط کٹنے کی وجہ سے اسے پہننے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہ کی۔ واہ سبحان اللہ مرحبا!کہ سنت رسول پر عمل کا جذبہ آپ رضی اللہ عنہ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

اللہ کریم ہمیں بھی سنتوں کا پیکر بنائے اور ہر کام اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

سنتیں مصطفیٰ کی تو اپنائے جا

دین کو خوب محنت سے پھیلائے جا

یہ وصیت تو عطار پہنچائے جا

اس کو جو ان کے غم کا طلبگار ہے