سنت کا لغوی معنی طریقہ
اور راستہ کے ہیں، علماء اصول کے ہاں ہاں سنت کا اطلاق ہر اُس قول
یا تقریر پر کیا جاتا ہےجو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کےطریقوں یعنی سنت سے ظاہر و باطن کو سجایا جائے! اس کی عملی تصویر ہمارے
صحابہ کرام کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
اللہ پاک نے قرآن ِپاک میں ارشاد
فرمایا:ترجمہ: "اور جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ:
دوران طعام حضرت حذیفہ ابن یمان
رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا، آپ رضی
اللہ عنہ نے
سنت کے مطابق اٹھا کر صاف کیا اور تناول فرما لیا، ایک خادم نے عرض کی کہ آپ ایسا نہ کیجئے، عجمیوں کے ہاں یہ طریقہ معیوب سمجھا جاتا ہے، وہ ایسا کرنے والے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: کیا کہا؟ میں محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت ان احمقوں کی وجہ سے چھوڑ دوں ؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا سنت پر
عمل کا جذبہ:
حضرت
عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کے شاگردِ خاص حضرت نافع رضی اللہ
عنہ بیان
فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے، ایک دن مجھے فرماتے کہ مجھے بازار لے چلو، میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار میں لے آیا، تھوڑی
دُور تک چلے اور فرمایا: کہ مجھے واپس لے چلو، میں نے عرض کی حضرت! آپ نے کوئی کام تو کیا نہیں، آپ نے فرمایا آتے ہوئے چند دوستوں سے سلام جواب ہوا، میں اسی کام کے لئے آیا تھا، کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام جواب دینے کی
سنت پر عمل ہوجائے جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے ہوئے عمل نہیں ہورہا تھا۔
یہ صحابہ کرام کا آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا جذبہ تھا، وہ اس
صاف شفاف آئینے میں اپنے چہرے دیکھتے تھے اور اپنے کردار اور اعمال کی اصلاح
فرماتے تھے، اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام
کا صدقہ عطا فرمائے اور ہم سنتوں کو عام کرنے والے بن جائیں والے بن جائیں۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم