صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر ہماری جان قربان! سنت پر عمل کرنے کا
بہترین جذبہ رکھتے تھے صحابہ کا سنت پر عمل کا بے مثال جذبہ ہے قربان جاؤں کہ
صحابہ نے نماز پڑھی تو نماز والے کو دیکھا، درود پڑھا تو درود والے کو دیکھا، قرآن
پڑھا تو قرآن والے کو دیکھا ،دعا مانگی تو والضحی چہرے کو دیکھا ۔
کمال ِ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا
جمالِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے قرارِصحابہ
خلوت ہو یا جلوت، جنگ ہو یا امن، دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا برسات، ہر ہر
ساعت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
پرجان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے۔
غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے مشورہ فرمایا تو حضرت
ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر
فاروق رضی
اللہ تعالی عنہ سمیت تمام
مہاجرین نے دین اسلام کے لئے تمام جان و
مال قربان کرنے کا اعلان کیا ۔
انصار مدینہ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں چھلانگ
لگا دیں گے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور عرض
کیا : آقا صلی
اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے دائیں
لڑیں گے، بائیں لڑیں گے، آگے لڑیں گے ، پیچھے لڑیں گے،( یعنی ہم آپ کی حفاظت کے
لیے اپنی جان قربان کر دیں گے) ۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اپنا مال راہ خدا میں جہاد کے
لیے صدقہ کرو۔
اس
فرمان عالی شان کی تعمیل میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے حسب توفیق اپنا مال جہاد کے لیے تصدق کیا،
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ
نے دس ہزار مجاہدین کا سازوسامان دس ہزاردینار، نو سو اونٹ اور سو گھوڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے پیش کیے ۔
حضرت
عمر فاروق رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :کہ
میرے پاس بھی مال تھا میں نے سوچا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ ایسے معاملات میں مجھ سے سبقت لے جاتے
ہیں اس مرتبہ میں اپنا مال پیش کرکے سبقت لے جاؤں گا چنانچہ وہ گھر گئے اور گھر کا
سارا مال اکٹھا کرکے اس کے دو حصے کیے ، ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کے لئےلے آئے اور دوسرا حصہ گھر والوں کے لئے رکھا ہے ۔
آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے عمر! گھر والوں کے لیے
کیا چھوڑ کر آئے ہو عرض کی آقا! آدھا مال گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں
عاشق اکبر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ
اٹھے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا؟ اے ابوبکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کر
آئے ہو تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! گھر کا سارا مال لے آیا ہوں، گھر والوں کے
لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں ۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی انہیں حیران رہ گئے اور فرمانے لگے کہ میں
ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالی عنہ سے کبھی بھی آگے
نہیں بڑھ سکتا۔
کیا پیش کروں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ
سے مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک
صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اسے اتار کر پھینک دیا - پھر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص آگ کی
چنگاری لے کر اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد ان صحابی سے کہا گیا
کہ اپنی انگوٹھی اٹھا لیجئے اس سے کوئی اور نفع اٹھا لیں تو وہ فرمانے لگے اللہ کی
قسم! میں اسے ہرگز نہ لوں گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھینک دیا۔
غرض یہ کہ صحابہ
کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنی
زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کو مقدم رکھتے۔
اے کاش! اللہ عزوجل ان عظیم ہستیوں کے سنت پر عمل کرنے کے جذبے کے صدقے ہمیں
بھی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
- اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم