سرورِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرتِ مُبارَکہ اور سنّتِ مُقَدَّسہ کی پَیروی ہر مسلمان پر واجِب و لازِم ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:

ترجمۂ کنز الایمان:اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤاللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(پ 3،سورہ آل عمران: ۳۱)

اسی لیے آسمانِ اُمَّت کے چمکتے ہوئے سِتارے، ہِدَایَت کے چاند تارے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول کے پیارے صَحابۂ کِرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہم و صَحابیات طیباترَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر سنّتِ کریمہ کی پَیروی کو لازِم و ضَروری جانتے اور بال برابر بھی کسی مُعَامَلہ میں اپنے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتوں سے اِنحراف یا تَرْک گوارا نہیں کرتے تھے۔صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم جس طوع و رضاکے ساتھ رسول ا للہ عزو جل وصلی ا للہ علیہ و سلم کی ا طا عت کرتے تھے ا س کے متعلق احادیث میں نہایت کثرت سےو ا قعات مذکور ہیں۔چند و ا قعات سے ا س کا ا ندا زہ ہوسکے گا۔

امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پراتباع کی ہے۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔

(بخاری جلد1 ،ص۱۸۶ باب موت یوم الاثنین)

ر سول ا للہ عزو جل و صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم نے شوہرکے علاو ہ د یگر ا عزہ کے سوگ کے لئےتین د ن مقررفر مائے تھے، صحابیات نے ا سکی ا س شدت سے پا بندی کی جب حضرت زینب بنت جحش ر ضی ا للہ تعالیٰ عنہاکےبھائی کا ا نتقال ہوگیاتو غالباً چوتھےدن ا نھوں نےخوشبولگائی، اور کہا کہ مجھ کو خوشبو کی ضرورت نہ تھی لیکن میں نےآپ صلی ا للہ تعالیٰ علیہ و ا لہٖ و سلم سے کسی مسلمان عورت کو شوہر کے سوا تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ جائز نہیں ،اس لیے یہ اسی حکم کی تعمیل تھی۔

)سنن ابی داود،کتاب الطلاق ،باب احداد المتوفی عنہا زوجہا،الحدیث:۲۲۹۹ ،ج:۲ص۴۲۲ )

یہ تھے سچے عاشقوں کے انداز کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہر ہر سنت کو دل و جان سےاپناتے تھے۔آج ہماری اکثریت سنتوں سے کوسوں دورہے اور اگربعض لوگوں کو مدنی ماحول کی برکت سے سنتیں اپنانے کا جذبہ ملتا بھی ہے توعموماً نفس پر گراں گزرنے والی سنتیں، جیسے کم اور سادہ کھانا، سادہ لباس پہننا وغیرہ سے وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اے کاش! ہمیں پیارے آقاصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں سے والہانہ محبت ہوجائے اور بس یہی زباں پرجاری ہوجائے:

شہا ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں

تری سنّتیں سکھانا مدنی مدینے والے

تری سنتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر

چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے