حضورِ
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنّتِ مقدّسہ کی پیروی ہر مسلمان کے لئے وجہِ اعزاز و اکرام ہے، اللہ
کریم کا فرمان ہے:(تَرجَمۂ کنزُ الایمان:) اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرماں بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے۔(پ 3، اٰل عمران:31)
آسمانِ
ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
پیارے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنّتِ کریمہ کی اتّباع کو اپنی زندگی کا
لازمی حصّہ بنائے ہوئے تھے۔
حضرت
ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس امر پر آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر
نہیں چھوڑتا، اگر میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حال سے کسی امر کو چھوڑ دوں تو
مجھے ڈر ہے کہ میں سنّت سے مُنحرف ہو جاؤں گا۔
(بخاری،2/338،حدیث:3093)
اللہ اللہ یہ شوقِ
اتباع اور پیروی !
کیوں نہ ہو! صدّیقِ اکبر تھے
حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بِن چھانے آٹے کی روٹی کھاتے دیکھا ہے، اس لئے میرے واسطے آٹانہ چھانا جایا کرے ۔
( طبقات ابن سعد، 1/301)
مسلمان
کو سلام کرنا بھی بڑی عظیم سنّت ہے اور
صحابۂ کرام اس پر عمل کا بھی بڑا عظیم جذبہ رکھتے تھے چنانچہ حضرت سیِّدُنا طُفَیل
بن ابی کَعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ
عنہماکے پاس جاتا تو وہ مجھے ساتھ لے کربازارکی طرف چل پڑتے۔ جب
ہم بازار پہنچ جاتے تو حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ رضی اللہ عنہ جس
ردی فروش، دُکاندار اور مسکین یاکسی شخص
کے پاس سے گزرتے تو سب کو سلام کرتے۔حضرت سیِّدُناطُفَیْل رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں (ایک دن جب
بازارجانے لگے تو): ’’میں نے
پوچھا: ’’آپ بازار جا کر کیا کریں
گے؟وہاں نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں۔نہ سامان کے متعلق کچھ پوچھتے ہیں۔ نہ
بھاؤ کرتے ہیں اورنہ بازارکی کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں۔میری تو گزارش یہ ہے کہ
یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں۔ ہم باتیں کریں گے۔فرمایا: ’’ہم
صرف سلام کی غرض سے جاتے ہیں ۔ہم جس سے ملتے ہیں اُسے سلام کہتے ہیں۔“ (موطا امام
مالک،2/444،حدیث:1844)
اللہ کریم ہمیں بھی صحابۂ کرام کےجذبۂ
اتباعِ سُنّت سے حصّہ عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم