حفاظت حدیث کی ذمہ داری سے صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہوگئے کے انکو محفو ظ کرکے آرام کی نیند سوجاتے ، ان کیلئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کیلئے نہیں تھی جن کو یاد کرکے بطور تبر ک قلوب واذہان میں محفوظ کرلیا جاتا ، بلکہ قرآنی تعلیمات کیطرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائم تھا ۔

میں کسی ایک فرد کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ شمع نبوت کے پروانوں کا عموماًیہ ہی حال تھا، آج کی طرح دنیا ان پر غالب اور مسلط نہیں تھی بلکہ وہ ان تمام عوائق وموانع سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف اپنے محبوب کی یاد کو دل میں بسائے سفروحضر میں اپنی دنیا کو انہیں کے ذکر سےآباد رکھتے تھے ،ان کا عشق ِرسول ہر ارشادکی تعمیل سے عبارت تھا ۔

عبادات میں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر ان کیلئے کوئی چارۂ کار ہی نہ تھا ، لیکن انکی اتباع ہر اس کام میں مضمر ہوتی جو انکے رسول کی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا ۔

کتب احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث پاک بیان کرتے وقت جس خاص ہیئت ووضع کو اختیار فرمایا ہوتاتھا تو راوی بھی اسی ادا سے حدیث روایت کرتا ۔مثلا احادیث مسلسلہ میں وہ احادیث جن کے راوی بوقت روایت مصافحہ کرتے ، تبسم فرماتے یا کسی دوسری ہیئت کا اظہار کرتے جو حضورسے ثابت ہوتی ۔مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اداوؤں کو اپنانا اور ان پر کاربند رہنا انکی زندگی کاجزو لاینفک بن چکا تھا، صحابہ کرام میں سنت رسول کی پیروی کا جذبہ اس حدتک موجود تھا کہ جس مقام پر جو کام حضور نے کیا تھا صحابہ کرام بھی اس مقام پر وہی کام کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں مشہور ہے کہ:

جن جن مقامات پر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حالت سفر وحضر میں نماز یں پڑھیں تھیں حضرت عبداللہ بن عمر ان مقامات کوتلاش کرکے نمازیں پڑھتے ،اور جہاں حضورنے اپنی سواری کا رخ پھیرا ہوتا وہاں قصدا ًآپ بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔

اگر کسی وقت یہ حضور کی خدمت میں حاضر نہ رہتے تو ان اقوال وافعال کے بارے میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے پوچھتے اوراس پر عمل پیرارہتے ۔

امام مالک سے ایک دن انکے شاگرد یحی بن یحى نے پوچھا: کیا آپ نے مشائخ کرام کویہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی پیروی کی اس نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع میں کوئی کوتاہی نہیں کی؟ بولے : ہاں۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نمونے چلتے پھرتے صحابہ کرام میں دیکھے جاتے اوران کو دیکھ کر صحابہ کرام حضور کی یاد تازہ کرتے ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں عبدالرحمن بن زید نخعی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا:

مجھے ایسے شخص کی نشاندھی کیجئے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے طور طریقوں میں زیادہ قریب ہو ،تاکہ میں ان سے ملاقات کرکے علم حاصل کروں اور احادیث کی سماعت کروں۔

فرمایا: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے چال ڈھال میں اوروضع قطع میں

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ قریب تھے ۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا اوران کا دستور عام یہ ہی تھا کہ زندگی کے ہرشعبہ میں حضور کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ۔انہوں نے اپنی عادات ، اپنے اخلاق اوراپنے طرز حیات کو حضور سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگنے کیلئے ہرممکن کوشش کی ،وہ صرف خود ہی اپنی زندگیوں کو حضور کے اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نمونۂ عمل کواپنا نے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔

امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب زخمی ہوئے تو آپ سے عرض کیاگیا کہ آپ کسی کواپنا خلیفہ نامزد فرمادیں ،توآپ نے فرمایا:اگر میں اس معاملہ کو ویسے ہی چھوڑدوں ،تو ایسا انہوں نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اوراگر خلیفہ مقرر کردوں تویہ بھی اس کی پیروی ہوگی جو مجھ سے بہتر ہے یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ پر مسلمانوں کی قوت وشوکت ظاہر کرنے کیلئے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے کاندھوں کو کھلا رکھیں اور طواف میں رمل کریں ۔جب اللہ تعالی نے اسلام کو قوت وشوکت عطافرمائی تو کند ھے کھولنے اوررمل کرنے کا سبب تو ختم ہوگیا لیکن حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

اب رمل اور کندھے کھولنے کی ضرورت کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطافرمادیا ہے اورکفر اور اہل کفر کو ختم کردیاہے ۔لیکن اسکے باوجود ہم اس کام کو ترک نہیں کرینگے جو ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عہد میں کیا کرتے تھے۔