کسی شخص کو جس سے محبت ہوتی ہے تو وہ اس کی عادات اور اس کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے اور اس کے منع کی گئی باتوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے رب تعالیٰ کے بعد ذات سب سے زیادہ محبت کی مستحق ہے وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور حضور سے محبت کی نشانیوں میں سے آپ کی سنتوں سے محبت اور ان پر عمل کرنا بھی ہے۔

چنانچہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی سنت سے محبت کی جائے اور آپ کی حدیث کو پڑھا جائے۔

(المواھب اللدنیہ ،ج2،ص499)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبین کا ذکر کیا جائے تو جن کی طرف سب سے پہلے ذہن جاتا ہے وہ ایسی ہستیاں ہیں جن سے اللہ تبارک و تعالی نے -وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- (سورۃ الحدید، آیت : 10)کا وعدہ فرمایا ہے جن کو رب تعالی نے رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (سورۃ التوبہ، آیت: 100 )کا مژدہ سنایا (اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں) میری مراد صحابہ کرام کی مبارک ذات ہے جن کی سیرت میں اتباع رسول کے بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ سے عقل انسانی دھنگ رہ جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا گیا کہ اپنی اونٹنی کو ایک مکان کے گرد چکر لگوا رہے ہیں ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمانے لگے کہ وجہ تو مجھے بھی معلوم نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔

(الشفاء، ج2، ص15)

انھیں کے متعلق مروی ہے کہ اتباع رسول کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کبھی کبھی آپ کی عقل ضائع ہونے کا اندیشہ ہو نے لگتا۔(الاصابۃ الرقم ،42،4852،ص 157)

یار غار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس کام پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل کیا کرتے تھے میں اسے کئے بغیر نہیں چھوڑتا تھا ۔

(نسیم الریاض، ج4، ص414)

چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل اپنی شہزادی سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی یہ سب کچھ پوچھنے کا سبب یہ تھا کہ زندگی میں تو اتباع رسول کرتے ہی رہے کہ آخری لمحات میں اور وصال کے بعد بھی اتباع رسول کرسکیں ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الجنائز ،باب موت یوم اثنین، ج1، ص468،حدیث 1387)

حضرت اسلم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں تجھے بوسہ نہ دیتا اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔(صحیح بخاری ،کتاب الحج، ج1، ص537 ،حدیث: 1597)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک درخت کے نیچے قیلولہ( دوپہر کا آرام) فرمانے کے لئے تشریف لے جاتے اور فرماتے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ (الترغیب والترھیب ،ج1،ص55،حدیث: 75)

معزز قارئین کرام! ہمیں بھی ان واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔