مصطفی جان
رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے
سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کی سنت مبارکہ سے محبت کی جائے ۔محب رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ میں ہر وقت یہ جستجو رہے کہ میری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ
کامل کے مطابق ہو۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اتباع رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عظیم درس زمانے کو دیا تاریخ عالم اس کا جواب پیش کرنے
سے قاصر ہے ۔اتباع رسول سے مراد یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہو ۔ہمارا ہر
قول احادیث مقدسہ کی تکمیل اور ہر فعل سنت مطہرہ کا مظہر ہو،ہمارا اٹھنا بیٹھنا
،کھانا پینا ،رونا ہنسنا غرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اسلامی ضابطۂ حیات کی
ترجمانی کرے۔ ہمارا اخلاق لسانی اور غیرت اسلامی بے مثال ہو ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایمان تھا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں باعث رحمت ہے اس لیے
وہ ہر مقام پر سنت کو ترجیح دیتے تھے ۔
(مشکوٰۃ
جلد۱،ص۴۴۶ ،باب فضل الفقراء)
ایک مرتبہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا
گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھونی ہوئی مسلّم بکری رکھی
ہوئی تھی لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئے بلایا تو آپ رضی
اللہ تعالی عنہ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کر دیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف
لے گئے اور کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی میں بھلا لذیذ اور پر تکلف
کھانوں کو کیونکر گوارا کر سکتا ہوں ۔
(بخاری
جلد ۱،ص۱۸۶ ،باب موت یوم الاثنین)
امیر المومنین
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے
اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کفنِ مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی وفات کس
دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی
اللہ تعالی عنہ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں
نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔مرنے کے بعد کفن
اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم
کی اتباع سنت نصیب ہو جائے۔
ابن ماجہ نے
حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے
روایت کی کہ معقل بن یسار رضی اللہ تعالی
عنہ
کھانا کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے لقمہ گر گیا انہوں نے اٹھا لیا اور صاف کر کے
کھا لیا ۔یہ دیکھ کر گنواروں نے آنکھوں سے اشارہ کیا (کہ یہ کتنی حقیر اور ذلیل
بات ہے کہ گرے ہوئے لقمے کو انھوں نے کھا لیا )کسی نے ان سے کہا خدا امیر کا بھلا
کرے (معقل بن یسار وہاں امیر اور سردار کی حیثیت سے تھے)یہ گنوار کن اکھیوں سے
اشارہ کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے
گرا ہوا لقمہ کھا لیا اور آپ رضی اللہ تعالی
عنہ
کے سامنے یہ کھانا موجود ہے انہوں نے فرمایا : ان عجمیوں کی وجہ سے میں اس چیز کو
نہیں چھوڑ سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ
عزوجل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہم کو حکم تھا کہ جب
لقمہ گر جائے اسے صاف کر کے کھا لیا جائے شیطان کے لیے نہ چھوڑ دے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان پر اللہ
عزوجل
کی خصوصی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو جنہوں نے سنت رسول صلی
اللہ وآلہٖ وسلم کا ایسا درس اس امت کو بتا دیا کہ
اللہ کی سر تابہ قدم شان ہیں یہ
ان
سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن
تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان
یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ