جس سے محبت ہو تی ہے انسان کے اند ر اُس کی عظمت ،اطاعت اور فر مانبرداری گھر کر جاتی ہے یہی محبت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمصحابہ کرام کو سنتوں پر عمل کا جذبہ دیتی ہے اور مز ید بڑھاتی ،کیونکہ کسی کے طریقے پر چلنا اصل میں اس شخص سے محبت کی وجہ سے ہو تا ہے۔

حضرت مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ و گا جب تک کہ میں اسکے باپ ،اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

( صحیح بخاری کتاب الایمان ،باب حبِ الرسول۔ الحد یث 15 ،جلد ا ، ص 17)

صحابہ کرام نے اپنی ذاتی حیثیت بالکل ختمی کر دی تھی اور اپنی ذات کو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کا آئینہ دار بنا لیا تھا اور نبئ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اسوہ حسنہ پر مکمل طور پر کار بند رہے۔اور یہی صحابہ اکرام کا سنتوں پر عمل کا جذبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا:"اصحابی کالنجوم "

" میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جسکی بھی اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔

( کشف الخفاء الحدیث 381 ج 1، ص 118)

صحابہ رضی اللہ عنہ کا عمل:

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک صحابی کو رنگین چادر اوڑھے ہو ئے دیکھا تو فر مایا : یہ کیا ہے؟ وہ سمجھ گئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ ناپسند فر مایا ہے فوراً گھر آئے اسے چولھے میں ڈال د یا۔( سنن ابی داؤد کتاب اللباس ، باب فی العمرۃ ،الحدیث: 4071 ج 4 ص 74)

حضرت خدیمہ اسدی رضی اللہ عنہ ایک صحا بی تھے جو نیچا تہبند باند ھتے تھے اور لمبے لمبے بال رکھتے تھے، ایک روز سر کار صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : خُد یمہ اسدی کتنا اچھا آدمی تھا، اگر بال لمبے نہ رکھتا ، اور نیچا تہبند نہ باند ھتا ، ان کو معلو م ہوا تو فوراً قینچی منگوائی ، اس سے بال کترے تہبند اونچا کر لیا۔

( سنن ابی داؤد ، کتاب اللباس ، باب ماجاء فی ا سبال للازار حدیث: 4009 ،ج 4، ص 80)

ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں آئے ایک شخص نے اٹھ کر ان کے لیے اپنی جگہ خالی کر دی تو انہوں نے اس کی جگہ پر بیٹھنے سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فر مایا ہے۔

شوقِ موافقت:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ سے دریافت کیا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کفن کے کتنے کپڑے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وفات کس دن ہو ئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ ر ضی اللہ عنہ کی آرزو تھی کہ کفن و یومِ وفات میں حضو ر علیہ السلام کی موافقت ہو۔ حیات میں حضو ر السلام کا اتباع تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ علیہ الصلاۃ االسلام کی اتباع چاہتے تھے۔

( صحیح البخاری ، کتاب الجنائز باب موت یوم الاثنین، جلد 1، ص 468)

اللہ اللہ یہ شوقِ اتباع

کیوں نہ ہو صدیق ِ اکبر تھے

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فر ماتے ہیں : کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی کھانے کی دعوت کی ،میں بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ گیا جس میں کدو اور خشک کیا ہو ا نمکین گوشت تھا ۔ کھانے کے دوران میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو کی قاشیں تلاش کر رہے ہیں اسی لیے میں اس دن سے کدو پسند کر نے لگا۔

( صحیح البخاری ، کتاب الاطعمہ باب الدباء، الحدیث 5433 جلد 3 ،ص 536)

لفظِ آخر:

عشقِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اگر پوری طور پر دل میں جا کز یں ہو تو اتباع ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظہور نا گز یں بن جا تا ہے،احکامِ الہی کی تعمیل اور سیرت نبوی کی پیروی عاشق کے رگ و ریشہ میں سما جاتی ہے۔

دل و د ماغ اور جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔مسلمان کی معاشرت سنور جاتی ہے آخرت نکھر جاتی ہے۔ اور یہی اتباع ِ سنت پر عمل کا جذبہ تھا جسکے طفیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو د نیا میں اختیار و اقتدار اور آ خرت میں عزت و وقار ملا اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع ِ رسول سے انحراف گوارہ نہ تھا صحابہ کرام ہر مر حلے میں اپنے محبوب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا نقش ِ پا ڈھو نڈتے اور اسی کو مشعلِ راہ بنا کر جاو پیما رہتے۔ یہاں تک کہ۔

لحد میں عشقِ رخ شہ کا داغ لے کر چلے

اندھیری رات سونی تھی چراغ لے کر چلے

( حدائقِ بخشش)