نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور سنت مبارکہ کی اتباع ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے اس کے متعلق حکم رب العزت ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمہ کنزالعرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل عمرآن : 31 )

اس لیے آسمان امت کے چمکتے ستارے، ہدایت کے تارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر واجب العمل سمجھتے تھے ۔

مختصر حدیث کی تعریف کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں :

"تم جان لو! جمہور محدثین کی اصطلاح میں حدیث کا اطلاق قول، فعل اور تقریر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے (مقدمۃ الشیخ، فصل اول، مکتبۃ المدینہ)

سب سے پہلے افضل البشر بعد الانبیاء کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ کی سنت کی پیروی کیسی تھی۔

یار غار کی آخری تمنا :

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا سنت پر عمل کا جذبہ اس کی مثال محال ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے کتنے کپڑے تھے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری وصال کس دن ہوا تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر قدم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا رہا اب مرنے کے بعد بھی میرا کفن اور وفات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل نصیب ہو ۔ (سیرت مصطفیٰ ،ص827)

میٹھے اسلامی بھائیوں! زندگی تو زندگی قربان جائیے کہ مرنے کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کا اس قدر اہتمام فرمایا۔مرحبا صد کروڑ مرحبا! یہی تو محبت کے تقاضے ہوتے ہیں

مرادِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم :

منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا اور ان کے مکان کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں کے اوپر گرا کرتا تھا امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو اکھاڑ دیا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس پرنالے کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میری گردن پر سوار ہوکر لگایا تھا ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :اے عباس! میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکر اس پرنالے کو اسی جگہ پر لگا دیں ۔ (سیرتِ مصطفیٰ 829)

میٹھے اسلامی بھائیوں! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جو خود مؤمنین کے امیر تھے مگر سنت محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی خواہش کو قربان کیا ،اپنی گردن کو سواری بنایا اس میں حقوق العباد کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حق مکمل طور پر ادا کیا ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے اکابرین ہیں اللہ کریم ان کے طفیل ہمیں بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے اور سنت کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم