صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی ایک فرد کو جانے دیجیئے، بلکہ تمام صحابہ کا عموما ًیہ حال تھا کہ وہ دنیاوی موانِع سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف اپنے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یاد کو دل میں بسائے سفرو حضر میں اپنی دنیا کو اُنہیں کی یاد سے آباد رکھتے،ان کا عِشق ہر ارشادِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ہر عملِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعمیل سے عبارت تھا۔

عبادات میں تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِتّباع کے بغیر چارہ نہیں، لیکن ان کی اِتّباع ہر اس کام میں مضمر ہوتی جو ان کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی طرف کسی نہ کسی طرح منسوب ہوتا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو اپنانا اور ان پر کاربند رہنا،ان کی زندگی کا جزوِ لایَنْفَکْ تھا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس مقام پر جو کیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان کوئی شرعی تقاضا نہ ہونے کے بنا پر اسی مقام پراپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا کو ادا کرتے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود سے یوں مُخاطِب ہوتے ہیں:’’میں جانتا ہوں تو پتھر ہے،نفع دے سکتا ہے نہ نقصان،اگر نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تجھے بوسا نہ دیتےتومیں تمہیں کبھی بوسا نہ دیتا۔ (بخاری شریف،کتاب الحج،باب تقبیل الحجر،صفحہ۲۹۶، حدیث ۱۶۱۰،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک بار وضو فرمانے کے بعد مسکرائے اور فرمایا: ’’ایک بار نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمبھی وضو فرمانے کے بعد مسکرائےتھے۔‘‘ (مسند امام احمد،مسند عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ،جلد ۱،صفحہ ۴۴۴، حدیث ۳۸۱،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے چال،ڈھال،شکل و صورت،اندازِ گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشابہ نہ پایا۔(السنن لابی داؤد، کتاب الادب،باب ماجاء فی القیام، حدیث ۵۲۱۷،صفحہ ۸۱۲، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کےبارے میں مشہور تھا کہ جِن جِن مقامات پر حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حالتِ سفر و حضر میں نمازیں پڑھیں تھیں،آپ ان مقامات کو تلاش کر کےنمازیں پڑھتے، اور جہاں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی سواری کا رخ پھیراہوتا،وہاں قصداًآپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔حتیٰ کہ جس درخت کے نیچے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمقیام فرماتےآپ رضی اللہ عنہ اس کی دیکھ بھال کرتےاور اس کی جڑوں کو پانی ڈالتے کہ کہیں خشک نہ ہوجائے۔( سیراعلام النبلاء،جلد۳،صفحہ ۲۱۳،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت،طبع ثانی ۱۹۸۲ء(۲)الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،جلد۴،صفحہ ۱۶۰،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،الطبعۃ الاولیٰ۱۹۹۵ء)

آپ رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکرلگوا رہے تھےلوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا ’’میں (اس کی حکمت) نہیں جانتا،مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو ایسا کرتے دیکھااس لیے میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،القسم الثانی،باب الاول،فی فرض الایمان بہ ووجوب طاعتہ و اتباع سننہ،فصل الثالث،صفحہ ۲۴۴،مطبوعہ شانِ اسلام،پشاور)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ ایک دعوت میں گیاتو صاحبِ خانہ نے جَو کی روٹی اورکدُّو شریف کاسالن پیش کیامیں نے دیکھاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چُن چُن کر کدو تناول فرمارہے تھے لہذا اس دن سے مِیں بھی کدو شوق سے کھانے لگا۔ (الصحیح للبخاری،کتاب الاطعمۃ،باب الدباء،صفحہ ۱۰۱۹،حدیث ۵۴۳۳، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

اللہ پاک ہم سب کو بھی سنّت پر عمل کرنے کاجذبہ عطا فرمائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم