پرودگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے ہم پر کہ :"اس نےنبی
آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم
کو ہمارے لیے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا، ہدایت کے روشن چراغ بے نظیر وبے
مثال آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کہ آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک ورق، ایک
ایک حرف ہماری زندگی کہ تمام اُمور میں رہنمائی کا
پیکر ہے۔
عرب
کے رہنے والے کہ جو حلال وحرام، خیر و شر میں کچھ فرق نہ جانتےتھے وہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی
کر کے اس مقام پہ جا پہنچےکہ ان کی اطاعت ہم پر لازم ٹھہری ، اہلِ عرب نے اطاعتِ
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
کےسبب پوری دنیا پہ حکمرانی کی، یہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ہی کا نتیجہ ہے کہ ان حضرات کی زندگیاں
آنے والے لوگوں کے لئے مشعلِ راہ
ہوئیں، قرانِ کریم میں ان حضرات کی تعریف اور ان کے لیے بشارتیں اُتریں، اصل
میں سنت پر عمل قران کریم حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ قران کریم کی عملی تفسیر ہے، قرآن
کریم میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- (سورة نساء،آیت 80)
ترجمہ:
جس نے رسول اللہ کی
اطاعت کی بے شک اس نے اللہ
کی اطاعت کی۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ:بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین
نمونہ ہے۔
قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوے
صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم
کی زندگیاں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم
کی حیات مبارکہ کی بے نظیر تفسیر ہیں، ان تمام ہستیوں نے اپنے آپ کو مکمل
سنت کے سانچے میں ڈھال دیا تھا، لباس، کلام، کھانا
پینا، اٹھنا بیٹھنا، عادات
ومعاملات، اخلاق و تہذیب الغرض ہر ہر چیز میں یہ دیکھتے کہ
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم
کا اس میں کیا عمل و طریقہ ہے، پھر وہ عمل اسی
انداز سے انجام دیتے تھے، یہ تو زندگی کی عادات ومعاملات کی بات ہے، یہ
بزرگ ہستیاں حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو انتہائی محبت و عقیدت سے انجام دیتے
تھے۔
امیرالمومنین
خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ فرماتےہیں:"ہرگز میں ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا جسے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے کیا ہو، میں ڈرتا ہوں کہ اگر کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔"
امیر
المؤمنین حضرت عمرِ فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نے حجرِاَسود کو مخاطب کر
کےفرمایا:" کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ
نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں
بوسہ نہ دیا ہوتا تو میں تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔(البخاری 1610)
امیرالمومنین
خلیفہ ثالث حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ
عنہ ایک بار وُضو کرنے کے بعد مسکرائے اور فرمایا:" کہ ایک
بارحضور صلی اللہ علیہ وسلم
وُضو کرنے کہ بعد مسکرائے تھے ۔"
امیرالمومنین
خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:" کہ اگر دین عقل کے تابع ہوتا توہم
موزوں کے باطن پرمسح کرتے مگر ہم نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو ظاہر پر مسح کرتے دیکھا ہے۔(مسند احمد 242)
حضرت
ابنِ عمر رضی اللہ عنہ
سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنتوں پر عمل کیا کرتے تھے، سفر میں بلا ضرورت لیٹ جاتے، بغیر
ضرورت کے رفعِ حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر جواب
دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
(مسند احمد
9/191)
حضرت
ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ
کے متعلق بھی آتا ہے کے یہ سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اختیار فرماتے
تھے، حتی کہ گھر کے معاملات معلوم کرنے کے لیے اپنی
والدہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
گھر بھیجا کرتے تھے۔(الا بالہ328)
محبوبۂ محبوبِ ربِّ کائنات ام المومنین عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں: کہ میں نے چال ڈھال، شکل و صورت، اندازِ
گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں شہزادی نبی، جگر
پارہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم و رضی اللہ تعالی
عنہا سے بڑھ کر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا کسی کو نہ پایا، حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا قول
مبارکہ :"جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے
محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔"کے مطابق تمام
صحابہ و صحابیات جنتی ہیں کہ ان سے بڑھ کر اتباعِ سنت
صلی اللہ علیہ وسلم کرنے
والا نہ آ یا ہے نہ آئے گا، رب
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اتباع ِسنتِ صحابہ صحابیات اور حق پہ قائم رہنے کا
شرف بخشے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہوں گے جو حضور کی سنت کا نگہبان
ان لوگوں کو ہم ملک کا سردار کریں گے
جس راہ سے گزریں سنت ِنبوی کے فدائی
اس راہ کے ہر ذرّے ہم بیدار کریں گے