یقیناً کامیاب و کامران وہی ہے کہ جوفرائض
وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے کیونکہ فلاحِ دارین
کا جو وظیفہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی
امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنّت کو مضبوطی سے
تھام لیں چنانچہ
سنت کو مضبوطی سے تھام لو:
حضرت سیّدنا عِرباض بن سارِیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرے بعد تم میں سے جو زندہ
رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری
سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو ۔
(ابوداؤد،
کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ، ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا، دار احیاء التراث
العربی بیروت 1426ھ)
سو شہیدوں کا ثواب:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ''مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ
اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃِ شَہِیْدٍ "یعنی فسادِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کریگا اسے سو
شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا ۔''(کتاب الزھد الکبیرللامام البیہقی،الحدیث۲۰۷،ج۱ ، ص۱۱۸ ،مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)
اللہ
تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ سورہ اٰل عمران کی آیت 31 میں ارشاد فرماتا
ہے:
اتباع و اطاعتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ
فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ
غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿ اٰل عمران۳۱﴾ترجمہ کنزالایمان: اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ
اللہ تمہیں
دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ایک اور مقام پر ارشادِ خدا وندی ہے: قُلْ
اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ
الْکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲ اٰل عمران﴾
ترجمۂ کنزالایمان: تم
فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کاپھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔
ان مذکورہ آیات میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کو لازمی قرار دیا ہے ۔ اور اللہ نے اپنی
اطاعت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے۔اتباع
، اطاعت سے آگے کا درجہ ہے کیوں کہ اطاعت کے معنی ہیں حکم ماننا ،حکم کی تعمیل
کرنا، اور اتباع کے معنی ہیں پیروی کرنا یعنی پیچھے چلنا۔
اطاعت میں فرائض و واجبات شامل ہوتے ہیں جبکہ
اتباع میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں بعض
حالات میں اطاعت ظاہری و رسمی بھی ہو سکتی ہے لیکن اتباع میں ظاہر و باطن دونوں
برابر ہو جاتے ہیں ۔اطاعت میں حکم دینے والے کی عظمت پیشِ نظر ہوتی ہے جبکہ اتباع
میں جس کی پیروی کی جائے اس کی عقیدت اور محبت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اتباع بھی کرتے تھے اسی
وجہ سے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کسی سنت کو ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ لہذا
اسی مناسبت سے صحابہ کرام رضی اللہ
عنہ کا سنت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کا
کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا اس بارے میں چند واقعات ملاحظہ فرمائیں!صحابۂ کرام میں حضور انورﷺکی سنت پر عمل کے جذبے
کا اندازہ ان واقعات سے لگایا جاسکتا ہے :
حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ اورحجرِ اسود کا بوسہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجرِ
اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا ’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو
ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ
دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف، ص۶۶۲، الحدیث:
۲۵۱)
اور سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ (نسائی، کتاب مناسک الحج، تقبیل الحجر، ص۴۷۸، الحدیث: ۲۹۳۴)
حضرت عثمانِ غنی رضی
اللہ عنہ کا بعدِ وضومسکرانا:
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے ایک
بار پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ مسکرانے لگے اور ساتھیوں سے فرمایا ’’
کیاتم
مجھ سے اس چیز کے بارے میں پوچھو گے نہیں جس نے مجھے مسکرایا؟ انہوں نے عرض کی: اے
امیرُ المؤمنین! رضی اللہ عنہ آپ کس چیز کی وجہ سے مسکرائے تھے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ایک بارحضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا س جگہ کے قریب ہی وضو فرمایا تھا اور
فراغت کے بعد مسکرائے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہ سے فرمایا تھا ’’کیاتم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ کس
چیز نے مجھے مسکرایا؟ صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، کس
چیز نے آپ کو مسکرایا؟ تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’بندہ جب وضو کا پانی منگوائے پھر
اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ تعالی اس
کے چہرے کے گناہ مٹا دیتا ہے،پھر اپنی کہنیاں دھوئے تو کہنیوں کے ،سر کا مسح کرے
تو سر کے اور اپنے قدموں کو دھوئے تو قدموں کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (تو میں نے انہی
کی ادا کو اداء کیا ہے۔)
(مسند امام احمد،
مسند عثمان بن عفان، ۱/۱۳۰، الحدیث: ۴۱۵)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک اونٹنی:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے
۔لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو آپ رضی اللہ
عنہ نے فرمایا’’ میں (اس کی حکمت)
نہیں جانتا، مگر اس جگہ میں نے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسا کرتے دیکھا تھا اس لئے میں بھی ایساکر
رہا ہوں۔
(شفا شریف، الباب الاول: فرض الایمان بہ، فصل
واما ماورد عن السلف فی اتباعہ، ص۱۵، الجزء الثانی)
حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ کا سنّت سے محبت :
حضرت سیّدنا اَنَس
بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھ سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اے میرے بیٹے !اگر تو یہ کرسکتا
ہے کہ اس حال میں صبح و شام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی بد خواہی (کینہ) نہ ہو تو
ایسا ہی کر۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے ! یہ میری سنّت ہے اورجو میری سنّت سے محبت
کرے گاوہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب و
السنۃ، الفصل الثانی، ۱/۵۵، حدیث: ۱۷۵ دار الکتب العلمیہ بیروت 1421ھ)
جامع الترمذی میں ہے کہ :
حضرت سیدناانس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے
فرمایا : ''مَنْ اَحَبَ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ
اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور
جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔
(جامع
الترمذی،کتاب العلم،الحدیث:۲۶۸۷،ج ۴، ص ۳۰۹ ،مطبوعہ
دارالفکربیروت)
حضرت سیّدنا ابودرداء رضی
اللہ عنہ بات کرتے وقت مسکرایا
کرتے :
حضرت
سیّدتنا اُمِّ درداء رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ جب بھی بات کرتے تو مسکراتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : میں نے سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے عرض کی آپ رضی اللہ عنہ اس عادت کو ترک فرما دیجئے ورنہ لوگ آپ کو احمق
سمجھنے لگیں گے۔ تو حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ
عنہ نے فرمایا: ’’میں نے جب بھی رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بات کرتے دیکھا یا سنا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تھے۔‘‘ (یعنی میں بھی اسی سنّت پر عمل کی نیت سے
ایسا کرتا ہوں )۔
(مسند احمد،مسند الانصار، ۸/۱۷۱، حدیث: ۲۱۷۹۱ دار الفکر
بیروت 1414ھ)
سرکار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسند اپنی پسند:
حضرت
سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ، (حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں :)آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ میں بھی دعوت میں شریک ہو گیا،
درزی نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے روٹی ، کدّو (لوکی شریف) اور گوشت کا
سالن رکھا ۔میں نے دیکھا نبیٔ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم برتن سے کدّو شریف تلاش کر کے تناول
فرمارہے ہیں (اس کے بعدآپ رضی اللہ
عنہ اپنا عمل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں )
فَلَمْ اَزَلْ اُ حِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ یَوْمَئِذٍ یعنی
اس دن کے بعد میں کدّو شریف کو پسند کرتا ہوں۔
(بخاری، کتاب البیوع ،باب ذکر الخیاط،۲/۱۷، حدیث: ۲۰۹۲ دار
الکتب العلمیہ بیروت 1419ھ)
مسلم
شریف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت سیّدنا ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سُنا:
فَمَا صُنِعَ لِیْ طَعَامٌ بَعْد اَقدِرُ عَلٰی اَنْ یُصْنَعَ فِیہِ دُبَّاءٌ اِ
لَّا صُنِعَ
اس کے بعد اگر کدّو شریف دستیاب ہوجاتا تو میرے کھانے میں وہ ضرور شامل ہوتا ۔
(مسلم، کتاب الاشربہ، باب جواز اکل المرق الخ، ص۱۱۲۹،
حدیث:۲۰۴۱ دار الغنی عرب شریف 1419ھ)
حضرت حافظ ابوشیخ عبد اللہ بن
محمد اَصبَہانی رحمۃ اللہ علیہ نے
حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک رضی اللہ
عنہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ فَاَنَا
اُ حِبُّ القَرْعَ لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاہیعنی
میں کدّو شریف کو صرف اس لیے پسند کرتا ہوں کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پسند فرمایا ہے۔
(اخلاق
النبی و آدابہ ، ذکر اکلہ للقرع ومحبتہ لہ صلی
اللہ علیہ وسلم، ص ۱۲۵، حدیث:۶۳۱ دارالکتاب العربی بیروت
1428ھ)
ترمذی
شریف میں یہ الفاظ بھی ہیں حضرت سیّدنا اَنَس رضی اللہ عنہ کدّو
شریف تناول فرماتے ہوئے فرما رہے تھے۔ یَا لَکَ شَجَرَۃً مَا اُحِبُّکِ
اِلّا لِحُبِّ رَسُوْلِ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِیَّاکَیعنی میرا تیرے
ساتھ کیا تعلق ؟ میں تجھے صرف اس لئے محبوب رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ بھی تجھ سے محبت فرماتے ہیں۔
(ترمذی ،
کتاب الاطعمۃ عن رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما
جاء فی اکل الدباء ، ۳/۳۳۶، حدیث:۱۸۵۶ دارالمعرفہ بیروت 1414ھ)
کسی کی ادا کو ادا کررہا ہوں:
حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ مکۃ المکرمہ جاتے ہوئے ایک جھڑبیریا کی
شاخوں میں اپنا عمامہ شریف اُلجھا کر کچھ آگے بڑھ جاتے پھر واپس ہوتے اور عمامہ
شریف چھڑا کر آگے بڑھتے ۔لوگو ں نے پوچھا یہ کیا ؟ ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عمامہ شریف اس بیرمیں اُلجھ گیا تھا اور
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنی دور آگے بڑھ گئے تھے اور واپس ہو کر
اپنا عمامہ شریف چھڑایا تھا۔
(نورالایمان بزیارۃآثار حبیب الرّحمٰن ،ص۱۵
برکات المدینہ باب المدینہ کراچی)
صحابۂ
کرام رضی اللہ عنہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں سے کس قدر محبت کیا کرتے
اورانہیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں پر عمل کا کیسا جذبہ ہوا کرتا تھا۔
کاش ہم بھی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں کو اپنانے والے بن جائیں۔
پانی پئیں تو سنّت کے مطابق ، کھانا کھائیں تو سنّت کے مطابق ، زُلفیں بڑھائیں تو
سنّت کے مطابق، عمامہ شریف سجائیں تو سنّت کے مطابق، لبا س تبدیل کریں تو سنّت کے
مطابق، کلام کریں تو سنّت کے مطابق، سواری پر سوار ہوں تو سنّت کے مطابق،الغرض ہم
سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔