گوشت چھوڑ دیا:

صحابہ کرام کی سنت پر عمل کا جذبہ ایسا تھا کہ سنتِ مبارکہ پر عمل کرنے کے لیے اپنی فطری عادات کو بھی بدل دیتے تھے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کسی نے دیکھا، کہ آپ کھانا کھاتے وقت سالن میں سے گوشت کی بوٹیاں ایک طرف کرتے جا رہے ہیں اور صرف کدو شریف اُٹھا اُٹھا کر تناول فرما رہے ہیں، کسی نے پوچھا: آپ ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھاہے۔ (مشکوۃ المصابیح)

نئی قمیض خراب کر لی :

صحابہ کرام سُنت پر عمل کرنے کی خاطراپنا نقصان برداشت کر لیتے لیکن سنتِ مبارکہ کو نہ چھوڑتے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نئی قمیض زیب تن فرمائی تو دیکھا اس کی آستین لمبی ہے، آپ نے اپنے بیٹے سے چُھری منگوائی اور فرمایا یہ لمبی آستینوں کو پکڑ کر کھینچو اور جہاں تک میری انگلیاں ہیں ان سے آگے سے کپڑا کاٹ دو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اِسے کاٹا تو وہ بالکل سیدھا نہیں تھا بلکہ اوپر نیچے سے کٹا، میں نے عرض کیا:" ابّاجان !اگر اسے قینچی سے کاٹا جاتا تو بہتر رہتا، آپ نے فرمایا:بیٹا! اسے ایسا ہی رہنے دو کیوں کہ میں نے محبوب دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کاٹتے دیکھا تھا۔( عشق رسول)

نمازی کو مار پڑگئی:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی کو عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھتا دیکھتے تو اسے مارتے یہاں تک وہ نماز سے باہر آ جاتا( یہ اس لئے کرتے تاکہ اللہ پاک کی بندگی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو، یعنی جس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نہیں پڑھے، میں بھی نہیں پڑھنے دوں گا)۔ (شرح معانی الآثار، ص 213، ج 1)

میری انگلیاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں جیسی نہیں:

صحابہ کرام حدیث مبارکہ بیان کرتے وقت وہی انداز و کیفیت کو بھی اپنا تے جو حدیث بیان کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائی ہوتی اور ادب کو خاص طورپر ملحوظِ خاطر رکھتے، حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں؟آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ مسئلہ بتاتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑے ہو گئے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بلند کیا اور چار انگلیوں سے اشارہ کر کے بتایا کہ ان کی قربانی جائز نہیں، کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے ہی ہاتھ بلند کر کے چار انگلیوں سے بتایا تھا ، پھر خیال آیا کہ کہیں میری اِن انگلیوں کو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں جیسا نہ سمجھ لے، فوراً فرمایا: میری انگلیاں ایسی نہیں ہیں، میری انگلیاں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت چھوٹی ہیں۔

(عون المعبود، شرح سنن ابی داؤد، ج7 ، ص 357)

صدائے مدینہ لگاتے جان دے دی:

نماز فجر کے لیے اُٹھانا( صدائے مدینہ) بڑی پیاری سنتِ مبارکہ ہے، صحابہ کرام کا سنت پر عمل کا ایسا جذبہ تھا کہ اس سنت پر عمل کرتے کرتے دو عظیم صحابہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ جامِ شہادت نوش فرمایا، حضرت سیدنا نقیع بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے جس شخص پر بھی گزرتے اُسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پاؤں مبار کہ سے ہلا تے، اس سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ جب بھی اپنے گھر سے نکلتے تو صدائے مدینہ لگاتے ہوئے راستے میں لوگوں کو جگاتے، ایک دن ابو لؤ لوْ راستے میں چھپا بیٹھا تھا کہ اُس نے موقع پا کر خنجر سے آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کر دیا، جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔

اگر ہم بھی سنتِ مبارکہ کو اپنا لیں تو ہماری مساجد آباد ہو جائیں گی۔(رسالہ صدائے مدینہ)

ان چند واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام کس طرح دیوانہ وار سُنتوں پر عمل فرماتے اور اپنی زندگیوں کو سنت ِمبارکہ پر قربان تک کر دیتے، کہ انہی راہوں پر چل کر ہمیں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی سنتِ مبارکہ کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم