صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سرکارِ خیرُالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سُنَّت کو دیوانہ وار اپناتے تھے کیونکہ پیارے آقا علیہ الصلوة السلام کی محبت انکے دلوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی اسی لئے وہ نبی علیہ السلام کی سنتوں کی اتباع میں سب سے بڑھ کر رہتے تھے اور ہر شعبہِ زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پہ چل کر اپنی زندگی بسر کرتے تھے اور وہ وقتا فوقتاً ان پہ عمل پیرا ہو کر اپنے متعلقین کو اس بارے میں بتاتے بھی تھے جیسا کہ

ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو خطاب کر کے فرمایا ”بخدا مجھے خوب معلوم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے جو نہ کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی بوسہ نہ دیتا۔“ اس کے بعد آپ نے بوسہ دیا۔ پھر فرمایا ”اور اب ہمیں رمل ( طواف کے پہلے تین چکروں میں سینہ تان کے چلنا) کی بھی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے اس کے ذریعہ مشرکوں کو اپنی قوت دکھائی تھی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا۔“ پھر فرمایا ”جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اسے اب چھوڑنا بھی ہم پسند نہیں کرتے۔“ (صحیح بخاری باب الرمل فی الحج والعمرہ ج 3 ص 422 ح 1618)

اسی طرح ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھریَکایک مُسکرائے اور اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے: جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھرخود ہی اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

میں نے دیکھا سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا تھا :جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ؟پھر میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی فرمایا: ’’جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں دھونے سے پاؤں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔‘‘

(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج 1 ص 474 ح 415 )

اسی طرح ایک مرتبہ حضرت علی مولا مشکل کشا رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہوں، جب آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو «بسم الله» کہا، پھر جب اس کی پشت پر ٹھیک سے بیٹھ گئے تو «الحمد الله» کہا، اور«سبحان الذي سخر لنا هذا وما كنا له مقرنين وإنا إلى ربنا لمنقلبون» کہا، پھر تین مرتبہ «الحمد الله» کہا، پھر تین مرتبہ«الله اكبر» کہا، پھر «سبحانك إني ظلمت نفسي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» کہا، پھر آپ مسکرا دئیے، پوچھا گیا: امیر المؤمنین! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا جیسے کہ میں نے کیا پھر آپ صلی الله عليه وسلم بھی مسکرا دئیے تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے: میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے ۔

( ابو داؤد کتاب الجہاد باب ما یقول الرجل اذا رکب جلد 5 ص 430 ح 2590 )

ان روایات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان پیارے آقا صلی الله عليه وسلم کی سنتوں سے کتنی زیادہ محبت فرماتے تھے اسی طرح ہمیں بھی اپنی زندگی میں نبی علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دینا اور آخرت دونوں سنوار جائیں ۔

یا مصطفی گناہوں کی عادتیں نکالو

جذبہ مجھے عطا ہو سنت کی پیروی کا

اللہ عزوجل ہمیں بھی پیارے آقا علیہ الصلوة والسلام کی سنتوں کا عامل بنائے

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم